خدا کا وجود - مفتی شمائل ندوی اور جاوید اختر کے درمیان آج کا مباحثہ
خدا کے وجود پر فلسفے، عقیدے اور منطق کی روشنی میں صدیوں سے بحث ہوتی آ رہی ہے اور اس موضوع پر بے شمار اہم کتب اور مکاتبِ فکر موجود ہیں۔ جدید علوم، سماجی ارتقاء اور سائنسی دریافتوں کے تناظر میں اس بحث کا جاری رہنا نہ صرف فکری طور پر مفید ہے بلکہ سننے اور پڑھنے والوں کو مختلف زاویوں سے سوچنے اور مخالف نقطۂ نظر کو برداشت کرنے کی تہذیب بھی سکھاتا ہے۔
تاہم اس پورے مباحثے میں ایک اہم سوال ایسا ہے جس پر مزید سنجیدہ گفتگو کی ضرورت محسوس ہوتی ہے:
اگر ہم خدا کے وجود کو تسلیم کر لیں، تو کیا وہ خدا لازماً کسی مخصوص مذہب کے عقیدے کا خدا ہی ہوگا؟
پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کائنات اور قدرت کے نظام میں جہاں انصاف اور رحم جیسی صفات واضح طور پر ہر جگہ کارفرما نظر نہیں آتیں، کیا یہ اوصاف خالق نے صرف انسانوں کے باہمی تعلق کے لیے متعین کیے ہیں؟
جب خدا کا مذہبی تصور زیرِ بحث آتا ہے تو لازماً اس کے ساتھ عملی زندگی، اخلاقیات اور انسانی رویّوں سے جڑے کئی موضوعات بھی گفتگو کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس مباحثے کو سننے کے بعد میری رائے میں، مذہبی افراد سے خدا کے وجود پر گفتگو کرتے ہوئے مذہبی عقیدے کے خدا اور عملی زندگی سے اس کے تعلق کو مکمل طور پر بحث سے الگ رکھنا ایک حد تک غیر تسلی بخش محسوس ہوتا ہے۔
حالیہ مباحثے میں مفتی شمائل ندوی صاحب روایتی مباحثے کے اسلوب اور علمی تیاری کے ساتھ شریک ہوئے۔ انہوں نے اپنا موقف مؤثر انداز میں پیش کیا، جس سے وہ ایک مثبت تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ دوسری جانب جاوید اختر صاحب نے ریشنلسٹ زاویے سے گفتگو کی اور بنیادی سوال کو انسان کی عملی زندگی سے جوڑنے کی کوشش کی، جو میرے نزدیک ایک مناسب اور بامعنی طریقہ ہے۔
بہرحال، یہ ایک ایسی بحث ہے جو شاید کبھی مکمل طور پر ختم نہ ہو، اور اگر اسے اسی طرح مہذب، علمی اور احترام کے دائرے میں رہ کر جاری رکھا جائے تو یہ مفید ایک عمل ہے۔
اس موضوع پر میری رائے اس تصور کے زیادہ قریب ہے کہ کائنات کی تخلیق کے تناظر میں خود تخلیق کو ہی خالق سمجھنے سے بھی اس مسئلے کی کچھ گرہیں کھل سکتی ہیں۔ جی ہاں، میرا اشارہ وحدتُ الوجود کے تصور کی طرف ہے-
Link to the debate
https://youtu.be/2eX26jVaR_A?si=bJEAx6hmZ-GcQ1MH
No comments:
Post a Comment