دین آدمیت
(جوش ملیح آبادی)
جوش ملیح آبادی
کی طویل نظم “دین آدمیت” سے منتخب اشعار
جب کبھی بھولے
سے اپنے ہوش میں ہوتا ہوں میں
دیر تک بھٹکے
ہوئے انسان پر روتا ہوں میں
ایشیا والو! یہ
آخر کیا خدا کی مار ہے
کل جو گھٹی پی
تھی اس پر آج تک اصرار ہے
مسلک اجداد سے
وابستگی ایمان ہے
یہ فقط تقلید
کے سرسام کا ہذیان ہے
یہ مسلماں ہے،
وہ ہندو، یہ مسیحی، وہ یہود
اس پہ یہ
پابندیاں ہیں، اور اس پر یہ قیود
شیخ و پنڈت نے
بھی کیا احمق بنایا ہے ہمیں
چھوٹے چھوٹے
تنگ خانوں میں بٹھایا ہے ہمیں
کوئی اس ظلمت
میں صورت ہی نہیں ہے نور کی
مہر ہر دل پر
لگی ہے اک نہ اک دستور کی
قابل عبرت ہے یہ
محدودیت انسان کی
چٹھیاں چپکی
ہوئی ہیں مختلف ادیان کی
پھر رہا ہے
آدمی، بھولا ہوا، بھٹکا ہوا
اک نہ اک “لیبل”
ہر اک ماتھے پہ ہے لٹکا ہو
خوردنی اشیأ
کا بھی یاں اک نہ اک آئین ہے
آم اگر دیندار
ہے، تو سنترا بے دین ہے
کیا کرے
ہندوستان اللہ کی ہے یہ بھی دین
چائے ہندو،
دودھ مسلم، ناریل سکھ، بیر جین
اپنے ہم جنسوں
کے کینے سے بھلا کیا فائدہ
ٹکڑے ٹکڑے
ہوکے جینے سے بھلا کیا فائدہ
دین کیا ہے،
خوف دوزخ، حرص جنت کے سوا
رسم تقویٰ کچھ
نہیں جبن و تجارت کے سوا
سینکڑوں حوروں
کا ہر نیکی پہ ہے ان کو یقین
سود لینے میں
“خدا” سے بھی یہ شرماتے نہیں
بند پانی سے
انہیں کیا آسکے بوئے فساد
یہ تو ہیں شخصی
خدا کے بندگان خانہ زاد
ان کو اُس اصلی
خدا سے دور کی نسبت نہیں
جس کے قبضہ میں
زماں ہے، جس کے قدموں پر زمیں
آج تک پہونچی
نہیں جس اوج تک چشم خیال
ایک نامعلوم
قوت، ایک نادیدہ جلال
جس کا ہر تارا
ہے مصحف، جس کا ہر ذرہ کتاب
جس کے دفتر کی
ہے زریں مُہر قرص آفتاب
اس کی کوئی
ابتدا ہے، اور نہ کوئی انتہا
لیکن ان ارباب
مذہب کا نرالا ہے “خدا”
وہ خدا جو آدمی
سے چاہتا ہے بندگی
تشنگی جس کو
بہت ہے خوشنما الفاظ کی
فاتحہ کا نان
حلوہ، آئے دن کھاتا ہے جو
انگلیوں پر
روز اپنا نام گنواتا ہے جو
سرنگوں رہتا
ہے جو اہل فتن کے سامنے
جس کی کچھ چلتی
نہیں ہے اہرمن کے سامنے
مجھ کو پوجو
مجھ کو چاہو کی صدا دیتا ہے جو
جو نہ چاہے،
اس کو دوزخ کی سزا دیتا ہے جو
حکم ہے جس کا
کہ یوں انگلی ہلانا چاہیے
جب جماہی آئے
تو چٹکی بجانا چاہیے
مر کے جلنا، یا
کسی دریا میں بہنا چاہیے
چھینک جب آئے
تو معا “الحمد” کہنا چاہیے
جو، اگر یوں
خم نہ ہو گردن، تو کرتا ہے بھسم
یوں جبیں کو ٹیک
دو، تو مائل جود و کرم
جس کے آگے رقص
کرنا، گنگنانا ہے حرام
جس کے آگے
قہقہہ کیا، مسکرانا ہے حرام
جس کے آگے
کانپنا، آنسو بہانا ہے ثواب
جس کے آگے سر
جھکانا گڑگڑانا ہے ثواب
مست ہوتا ہے
جو یوں انسان کی تحسین پر
پھن اُٹھا کر
جھومتا ہے ناگ جیسے بین پر
فطرت انسان کا
خالق ہوکے بھی جو صبح شام
بے خطا انسان
سے لیتا ہے کیا کیا انتقام
گاہ آتا ہے یہاں
طوفان پر ہوکر سوار
گاہ غصے میں
ہلاتا ہے زمیں کو بار بار
جس نے لاکھوں
راہبر بھیجے ہدایت کے لئے
روند ڈالا جس
نے اس کثرت کو وحدت کے لئے
خون گو سو بار
اُس کے آستاں پر بہہ گیا
پھر بھی جو
اپنے مشن میں فیل ہوکر رہ گیا
چار دن جو شاد
ہے، اور چار دن ناشاد ہے
یہ خدا تو آدمی
کے ذہن کی ایجاد ہے
سخت حیراں
ہوں، یہ کیسا وہم کا طوفان ہے
اے عزیزو، یہ
“خدا” کے بھیس میں “انسان” ہے
مدتیں گزریں
کہ عقل انجمن مدقوق ہے
دوستو، ایسا
خدا خالق نہیں، مخلوق ہے
اُٹھ کھڑے
ہوں، آؤ تکمیل عبادت کے لئے
اک نیا نقشہ
بنائیں آدمیت کے لئے
آؤ محفل میں
جلائیں بھی بصد شان فراغ
نوع انسانی کی
مجموعی اخوت کا چراغ
اور کچھ حاجت
نہیں ہے دوستی کے واسطے
آدمی ہونا ہی
کافی ہے، آدمی کے واسطے
آؤ وہ صورت
نکالیں جس کے اندر جان ہو
آدمیت دین ہو،
انسانیت ایمان ہو
میں شراب وہم
آبائی کا متوالا نہیں
آدمیت سے کوئی
شے دہر میں بالا نہیں
(جوش ملیح
آبادی)