Thursday, January 16, 2025

دین آدمیت - جوش ملیح آبادی

دین آدمیت (جوش ملیح آبادی)

 

جوش ملیح آبادی کی طویل نظم “دین آدمیت” سے منتخب اشعار

 

جب کبھی بھولے سے اپنے ہوش میں ہوتا ہوں میں

دیر تک بھٹکے ہوئے انسان پر روتا ہوں میں

ایشیا والو! یہ آخر کیا خدا کی مار ہے

کل جو گھٹی پی تھی اس پر آج تک اصرار ہے

مسلک اجداد سے وابستگی ایمان ہے

یہ فقط تقلید کے سرسام کا ہذیان ہے

یہ مسلماں ہے، وہ ہندو، یہ مسیحی، وہ یہود

اس پہ یہ پابندیاں ہیں، اور اس پر یہ قیود

شیخ و پنڈت نے بھی کیا احمق بنایا ہے ہمیں

چھوٹے چھوٹے تنگ خانوں میں بٹھایا ہے ہمیں

کوئی اس ظلمت میں صورت ہی نہیں ہے نور کی

مہر ہر دل پر لگی ہے اک نہ اک دستور کی

قابل عبرت ہے یہ محدودیت انسان کی

چٹھیاں چپکی ہوئی ہیں مختلف ادیان کی

پھر رہا ہے آدمی، بھولا ہوا، بھٹکا ہوا

اک نہ اک “لیبل” ہر اک ماتھے پہ ہے لٹکا ہو

خوردنی اشیأ کا بھی یاں اک نہ اک آئین ہے

آم اگر دیندار ہے، تو سنترا بے دین ہے

کیا کرے ہندوستان اللہ کی ہے یہ بھی دین

چائے ہندو، دودھ مسلم، ناریل سکھ، بیر جین

اپنے ہم جنسوں کے کینے سے بھلا کیا فائدہ

ٹکڑے ٹکڑے ہوکے جینے سے بھلا کیا فائدہ

دین کیا ہے، خوف دوزخ، حرص جنت کے سوا

رسم تقویٰ کچھ نہیں جبن و تجارت کے سوا

سینکڑوں حوروں کا ہر نیکی پہ ہے ان کو یقین

سود لینے میں “خدا” سے بھی یہ شرماتے نہیں

بند پانی سے انہیں کیا آسکے بوئے فساد

یہ تو ہیں شخصی خدا کے بندگان خانہ زاد

ان کو اُس اصلی خدا سے دور کی نسبت نہیں

جس کے قبضہ میں زماں ہے، جس کے قدموں پر زمیں

آج تک پہونچی نہیں جس اوج تک چشم خیال

ایک نامعلوم قوت، ایک نادیدہ جلال

جس کا ہر تارا ہے مصحف، جس کا ہر ذرہ کتاب

جس کے دفتر کی ہے زریں مُہر قرص آفتاب

اس کی کوئی ابتدا ہے، اور نہ کوئی انتہا

لیکن ان ارباب مذہب کا نرالا ہے “خدا

وہ خدا جو آدمی سے چاہتا ہے بندگی

تشنگی جس کو بہت ہے خوشنما الفاظ کی

فاتحہ کا نان حلوہ، آئے دن کھاتا ہے جو

انگلیوں پر روز اپنا نام گنواتا ہے جو

سرنگوں رہتا ہے جو اہل فتن کے سامنے

جس کی کچھ چلتی نہیں ہے اہرمن کے سامنے

مجھ کو پوجو مجھ کو چاہو کی صدا دیتا ہے جو

جو نہ چاہے، اس کو دوزخ کی سزا دیتا ہے جو

حکم ہے جس کا کہ یوں انگلی ہلانا چاہیے

جب جماہی آئے تو چٹکی بجانا چاہیے

مر کے جلنا، یا کسی دریا میں بہنا چاہیے

چھینک جب آئے تو معا “الحمد” کہنا چاہیے

جو، اگر یوں خم نہ ہو گردن، تو کرتا ہے بھسم

یوں جبیں کو ٹیک دو، تو مائل جود و کرم

جس کے آگے رقص کرنا، گنگنانا ہے حرام

جس کے آگے قہقہہ کیا، مسکرانا ہے حرام

جس کے آگے کانپنا، آنسو بہانا ہے ثواب

جس کے آگے سر جھکانا گڑگڑانا ہے ثواب

مست ہوتا ہے جو یوں انسان کی تحسین پر

پھن اُٹھا کر جھومتا ہے ناگ جیسے بین پر

فطرت انسان کا خالق ہوکے بھی جو صبح شام

بے خطا انسان سے لیتا ہے کیا کیا انتقام

گاہ آتا ہے یہاں طوفان پر ہوکر سوار

گاہ غصے میں ہلاتا ہے زمیں کو بار بار

جس نے لاکھوں راہبر بھیجے ہدایت کے لئے

روند ڈالا جس نے اس کثرت کو وحدت کے لئے

خون گو سو بار اُس کے آستاں پر بہہ گیا

پھر بھی جو اپنے مشن میں فیل ہوکر رہ گیا

چار دن جو شاد ہے، اور چار دن ناشاد ہے

یہ خدا تو آدمی کے ذہن کی ایجاد ہے

سخت حیراں ہوں، یہ کیسا وہم کا طوفان ہے

اے عزیزو، یہ “خدا” کے بھیس میں “انسان” ہے

مدتیں گزریں کہ عقل انجمن مدقوق ہے

دوستو، ایسا خدا خالق نہیں، مخلوق ہے

 

اُٹھ کھڑے ہوں، آؤ تکمیل عبادت کے لئے

اک نیا نقشہ بنائیں آدمیت کے لئے

آؤ محفل میں جلائیں بھی بصد شان فراغ

نوع انسانی کی مجموعی اخوت کا چراغ

اور کچھ حاجت نہیں ہے دوستی کے واسطے

آدمی ہونا ہی کافی ہے، آدمی کے واسطے

آؤ وہ صورت نکالیں جس کے اندر جان ہو

آدمیت دین ہو، انسانیت ایمان ہو

میں شراب وہم آبائی کا متوالا نہیں

آدمیت سے کوئی شے دہر میں بالا نہیں

(جوش ملیح آبادی)



Monday, December 9, 2024

شام پر باغیوں کا قبضہ اور بعث پارٹی کا خاتمہ


پاکستان کی اسلامسٹ سُنی ملائیت شام کی خانہ جنگی اور اب باغیوں کے مکمل کنٹرول کو صرف شیعہ سُنی تنازعہ کی نظر سے دیکھ رہی ہے، جبکہ اسکے پیچھے عوامل اور اثرات فرقہ واریت سے کہیں زیادہ ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کے حافظ الاسد کی بعث پارٹی اور پھر بشار الاسد ڈیکٹیٹر تھے، جنہوں نے دیگر عرب حکمرانوں کی طرح اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ نہایت سختی اور ظلم کا رویہ رکھا، عراق میں صدام، مصر میں انوارالسادات /حُسنی مبارک، سعودی عرب اور گلف ریاستوں کے امیر، سب ہی اس معاملے میں نہلے پہ دہلا رہے۔ حافظ الاسد کا قائم کردہ نظام ڈیکٹیٹرشپ ضرور تھا لیکن خانہ جنگی سے پہلے کا شام کی حکومت کا معاشی پروگرام نیم سوشلسٹ تھا- اس میں عام آدمی کے لئے ریاست کی جانب سے کئی بنیادی ضروریات پہنچانے کا بدوبست بھی موجود تھا۔ مشرق وسطی کے دیگر ممالک کے برعکس شام کے اقتصادی وسائل بہت کم ہیں، لیکن بعث پارٹی کی حکومت کے انتظام کا جائزہ لینے پر معلوم پڑتا تھا کے انہوں نے معاشی وسائل کی تقسیم کا قدرے بہتر بندوبست کر رکھا تھا۔ گوکہ حافظ الاسد شیعہ فرقہ علوی سے تعلق رکھتے تھے لیکن حکومتی اور ریاستی معاملات میں بڑے پیمانے پر فرقہ کی بنیاد پر تعصب نہیں تھا۔

علوی فرقہ اس وقت موضوع بحث نہیں ہے لیکن مختصرا بتا دوں کے شام میں علوی اقلیت کو دیگر مسلمانوں کی جانب سے بہت لبرل یا سیکولر کہا اور سمجھا جاتا ہے، اور اسی بنیاد پر سُنی مسلک کے مذہبی لوگ ان پر شدید اعتراضات بھی کرتے ہیں۔  علویوں کو نصیریہ بھی کہا جاتا تھا، اس کا آغاز نویں اور 10ویں صدی میں ہوا تھا۔ گوکہ حافظ الاسد علوی تھے اور بعث پارٹی پر انکا کنٹرول ضرور تھا لیکن بعث پارٹی ایک عرب نیشنلسٹ  اور سوشلسٹ پارٹی رہی یہ علوی فرقہ کی نمائندہ نہیں تھی بلکہ جس طرح شام میں اکثریت سُنیوں کی ہے، بعث پارٹی میں بھی سُنی عوام کی کثیر تعداد ہی ممبر رہی ہے۔ اور 2016 میں خانہ جنگی کے دوران تو کچھ علوی دھڑے کے رہنماؤں نے ایک انتہائی غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے اسد حکومت سے اعلانیہ دوری بھی اختیار کی تھی۔ لیکن دوسری طرف شام میں بعث پارٹی کے سیاسی مخالف اور خاص طور پر اخون المسلمین قسم کے اسلامسٹ نظریات کے لوگ عوام کو احساس دلاتے رہتے تھے کے یہ سُنی اکثریت کا ملک ہے اور علوی حکمران کو ہٹا کر اسکو سُنی اسلامی ریاست بنانا ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔ 

جس طرح ابتدا میں یاسر عرفات کی الفتح کے مقابل اسرائیل نے حماس کو مضبوط کیا بلکل اسی طرح شام میں بھی انہوں نے اسد حکومت کے خلاف اسلامسٹوں کو سپورٹ کیا۔ اسکی بنیادی وجہ یہ رہی کے شام کی بعث پارٹی اسد خاندان کی زیر قیادت روس کی حلیف ہونے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی آزادی کے اپنے موقف پر قائم تھی۔ اسی سبب امریکہ اور اسرائیل شام سے کبھی خوش نہیں تھے۔ 2010 میں شام میں کئی برسوں کی خشک سالی نے کسانوں کو معاشی طور پر بہت پریشان کیا۔ اوپر سے طویل ڈیکٹیٹرشپ سے تنگ عوام "عرب سپرنگ" کے زیر اثر بڑی تعداد میں بشار الاسد حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے جنکو حکومت نے نہایت سفاکی سے کچلنے کی کوشش کی جسکے نتیجہ میں سعودی عرب/امریکہ/اسرائیل/ترکی کے وسائل سے بہت سے مسلح باغی گروہ ملک میں وجود میں آئے جنکی اکثریت بعد میں دائش کے جھنڈے تلے متحد ہوئی اور جنکے ظلم کی داستانیں سبکو معلوم ہیں۔ اس طویل اور خونی خانہ جنگی میں ترکی سمیت ہر ملک اپنے سیاسی مفادات کے زیراثر مختلف باغی گروہوں کو سپورٹ کرتا رہا۔ اسی طرح روس اور ایران اپنے علاقائی مفادات کے تحفظ میں بشار الاسد کی بقا کی جنگ لڑتے رہے۔ حالیہ مہینوں میں حزب اللہ اور حماس کے خلاف اسرائیل کی کامیابیوں کے بعد ایران بہت کمزور پڑ گیا، ادھر روس کی ساری توجہ یوکرین کی طرف لگ گئی۔ جس کے سبب ان ممالک کی جانب سے بشار الاسد کو ملنے والی عسکری سپورٹ کمزور پڑگئی اور پھر شمال سے ترکی کے حمایت یافتہ گروہ اور دوسری طرف سعودی، امریکی، اسرائیلئ حمایت یافتہ باغی گروہ القائدہ اور دائش کے سابقہ کمانڈر ابو محمد الجولانی کی قیادت میں متحد ہوکر بشار الاسد کی حکومت گرانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

شام میں تبدیلی وسیع تر بین الاقوامی تبدیلیوں کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ یوکرین کے تنازعے سے پیچھے ہٹ رہا ہے، جب کہ روس شام میں اپنے فوجی اڈے خالی کر رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں عالمی ترجیحات کی از سر نو ترتیب کی نشاندہی کرتی ہیں۔

اس سارے تنازعہ کو پاکستان میں، مذہبی عناصر طالبان کے تحت افغانستان کے "اسلامی احیا" کے تسلسل سے تعبیر کررہے ہیں، جو اب شام تک پھیلا ہوا ہے۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ ایک آمر کی گرفت سے نکلنے کے بعد، کیا شام لیبیا اور افغانستان کی طرح مزید گہرے انتشار کی طرف جائے گا، یا وہ ایک نارمل مستحکم نظام حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟ صورتحال بدستور غیر یقینی ہے۔

Rebellion Takes Over Syria and the End of the Ba'ath Party



Pakistan's Sunni Islamist clergy views the Syrian civil war and the rebels' takeover through the lens of a Shia-Sunni conflict. However, the underlying causes and implications go far beyond sectarianism.

There is no denying that Hafez al-Assad's Ba'ath Party and later Bashar al-Assad's regime were dictatorial, employing harsh and oppressive measures against political opponents. This is much like other Arab rulers—Saddam in Iraq, Anwar Sadat/Hosni Mubarak in Egypt, and the monarchs of Saudi Arabia and the Gulf states. Despite being a dictator, Hafez al-Assad's pre-civil war Syria operated under a semi-socialist economic system, which provided basic necessities to the common people. Syria, unlike many Middle Eastern countries, had limited economic resources. Still, the Ba'ath Party managed to maintain a relatively equitable system of economic justice. While Assad was an Alawite—a Shia sect—there was no widespread sectarian bias in governance.

The Role of the Alawite Sect

The Alawite sect, often labeled liberal or secular by other Muslims in Syria, has faced criticism from Sunni clerics. Historically referred to as the Nusairis, the Alawite sect emerged in the 9th and 10th centuries. Although Hafez al-Assad was associated with Alawites, the party itself was a pan-Arab nationalist and socialist entity. Most of its members were Sunni, reflecting Syria's Sunni majority. During the civil war in 2016, some Alawite leaders publicly distanced themselves from the Assad regime—an unprecedented move. Meanwhile, Assad's political opponents, particularly Islamist groups like the Muslim Brotherhood, continued to promote the idea that Syria, as a Sunni-majority nation, must be turned into a Sunni Islamic state.

External Influences and the Rise of Islamist Rebels

Similar to Israel's early support for Hamas as a counterweight to Yasser Arafat's Fatah, external forces backed Islamist factions against Assad's government. The Ba'ath Party's alignment with Russia and steadfast support for Palestinian liberation made Syria an adversary of the U.S. and Israel. Years of drought in the country devastated Syria's farmers, and public frustration with prolonged dictatorship culminated in mass protests during the "Arab Spring." Assad's brutal crackdown on dissent fueled the emergence of various armed rebel groups, heavily funded by Saudi Arabia, the U.S., Israel, and Turkey. Many of these groups later coalesced under ISIS, infamous for its atrocities.

Over the years, various nations supported different factions based on their political agendas, with Turkey, the U.S., Saudi Arabia, and Israel backing certain rebels, while Russia and Iran fought to preserve Assad's regime. However, recent geopolitical shifts have weakened Assad's allies. Israeli successes against Hezbollah and Hamas have diminished Iran's influence, while Russia's focus has shifted to Ukraine, reducing its military support for Assad. This has allowed Turkish-backed rebels and Saudi- and U.S.-supported factions, including former al-Qaeda commander Abu Mohammad al-Joulani, to unite and overthrow Assad's government.

International Implications

The conflict also reflects broader international dynamics. The U.S. appears to be retreating from the Ukraine conflict, while Russia is vacating its military bases in Syria. These shifts indicate a reorientation of global priorities.

Pakistan's Perspective

In Pakistan, religious hardliners interpret these developments as a continuation of Afghanistan's "Islamic revival" under the Taliban, now extending to Syria. However, the question remains: after escaping the grip of a brutal dictator, will Syria follow Libya and Afghanistan into deeper chaos, or will it manage to establish a stable governance system? The situation remains uncertain.

Saturday, June 8, 2024

ہاتھ سے بنی روٹی

 یہ ہاتھ کی پکی ہوئی روٹی بھی ایک آرٹ ہے

آسمان یہ دیکھنے والی کائنات ہے

چاند، ستارے کہکشاں

سبہی کچھ ہی اس میں موجود ہے

گوندھی ہوئی ہے احساسات اور جذبات کی خوشبو اس میں

یہ زندگی ہے

خوش رہیں وہ تمام ہاتھ، جو یہ بناسکتے ہیں

 اور اپنے پیاروں کو کھلا سکتے ہیں

✌🏽اسجد✌🏽 Aug 16 2023





سجیلوں کی مملکت ہے


سجیلوں کی مملکت ہے

سجیلوں کی حکومت ہے

سجیلوں کے فیصلے ہیں

سجیلوں کی سلطنت میں

سیاسدان مہمان اداکار ہیں

سجیلوں کی ریاست میں

عوام کی گنتی کا شمار 

اگر دو اور دو ایک ہے

تو اس پر کیسا اعتراض

خاموشی سے کہو، میرا سلام 

اے وطن کے سجیلے جوان

Aug 06 2023



Tuesday, March 19, 2024

ڈی این اے ٹیسٹنگ افسانہ اور حقیقت

آجکل ڈی این اے ٹیسٹنگ کا رواج عام ہورہا ہے لیکن اسکے رزلٹ کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اس بلاگ میں اس کی کچھ وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں

ڈی این اے ٹیسٹنگ کے ذریے کسی کے شجرہ نسب  کے بارے میں قیمتی معلومات مل سکتی ہیں، لیکن درستگی کی سطح پر کئی عوامل اثرانداز ہو سکتے ہیں- جیسے ٹیسٹ کی قسم اور ٹیسٹنگ کمپنی کا مخصوص جینیاتی ڈیٹا بیس اور سب سے اہم اس فرد کے اجداد کا ماضی سے آج تک کس تعداد میں دوسری انسانی نسلوں سے ملاپ ہوا ہوگا- جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے ایسے ٹیسٹ زیادہ پیچیدہ ہیں- جسکے لیے ان باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہئیے

جینیاتی تنوع: جنوبی ایشیاء جینیاتی طور پر ناقابل یقین حد تک متنوع ہے-  جس کا سبب اس خطۂ میں بسنے والے انسانی گروہوں کی دنیا کے مختلف علاقوں سے برصغیر میں صدیوں کی ہجرت اور آپس کے تعلقات اور ملاپ ہے۔ صدیوں پر محیط اس ہجرت کے نتیجے کے طور پر، جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد کا جینیاتی نسب پیچیدہ اور متنوع آبائی شراکت کی عکاسی کر سکتا ہے۔ جس کے سبب حتمی نتیجہ نکلنا پیچیدہ اور کئی صورتوں میں ممکن نہیں ہے

ٹیسٹنگ کمپنی کا ڈیٹا بیس: نسب کے اندازے کی درستگی کا انحصار ٹیسٹنگ کمپنی کے ڈیٹا بیس میں شامل حوالہ آبادی پر بھی منحصر ہے۔ کچھ کمپنیوں کے پاس جنوبی ایشیا کی آبادی پر زیادہ وسیع ڈیٹا بیس ہو سکتا، جب کہ کسی کے پاس محدود نمائندگی ہو سکتی ہے۔ ایک بڑا اور زیادہ متنوع ڈیٹا بیس عام طور پر بہتر یا درست نتائج کی طرف نشان دہی کر سکتا ہے

ڈی این اے ٹیسٹ کی اقسام: مختلف قسم کے ڈی این اے ٹیسٹ نسب کے بارے میں مختلف معلومات مہیا کر سکتے ہیں۔ آٹوسومل ڈی این اے ٹیسٹ  دونوں والدین سے وراثت میں ملنے والے جینیاتی مواد کی جانچ کرتے ہیں-  یہ عام طور پر نسب کی جانچ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم ایم ٹی ڈی این اے اور وائی ڈی این اے ٹیسٹ بالترتیب زچگی اور آبائی نسبوں کے بارے میں مخصوص معلومات فراہم کر سکتے ہیں

تاریخی سیاق و سباق: جنوبی ایشیا میں تاریخی نقل مکانی، تجارتی راستوں اور ثقافتی تبادلوں کو سمجھنے سے ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج کی درست تشریح میں مدد مل سکتی ہے۔ مثال کے طور پر آریاؤں، دراوڑیوں، یونانیوں، فارسیوں، عربوں، وسطی ایشیائیوں اور یورپیوں کی ہجرت نے خطے کے جینیاتی تنوع میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

حدود: نسب کے جاننے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹنگ کی حدود کو پہچاننا ضروری ہے۔ اگرچہ ڈی این اے جینیاتی ورثے کے بارے میں بصیرت فراہم کر سکتا ہے، لیکن یہ کسی کے شجرہ نسب یا ثقافتی شناخت کی مکمل تصویر فراہم نہیں کر سکتا۔ اسکا بڑا سبب یہ ہے کے جب ماضی میں مختلف انسانی نسلوں کا آپس میں ایک مخصوص تعداد سے زیادہ جینیاتی ملاپ ہو چکا ہو تو اجداد کے ڈی این اے کا  اثر کم یا کمزور ہو جانا ہے- جس کے سبب آج کے انسان کا ڈی این اے  آباؤ اجداد کو شناخت کرنے کے قابل نہیں رہتا

آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کے ڈی این اے ٹیسٹنگ کسی کے نسب کے بارے میں قیمتی اشارے پیش کر سکتی ہے اور افراد کو ان کے ورثے کو دریافت کرنے میں مدد کر سکتی ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ انکی حدود کو سمجھ کر نتائج تک پہنچیں، جس میں تاریخی اور نسباتی تحقیق کو ساتھ ملا کر جینیاتی نتائج کی تکمیل کسی حد
تک کی جا سکتی ہے 


DNA testing myth and reality:

DNA testing can provide valuable insights into one's ancestry and family tree, but the level of accuracy can vary depending on several factors, including the type of test taken and the specific genetic database used by the testing company.

It is more complicated for individuals from South Asia, following considerations should keep in mind:

Genetic Diversity: South Asia is incredibly diverse genetically, with populations that have been shaped by centuries of migrations, interactions, and intermixing. As a result, the genetic ancestry of individuals from South Asia can be complex and may reflect diverse ancestral contributions.

Testing Company Database: The accuracy of ancestry estimates depends on the reference populations included in the testing company's database. Some companies may have more extensive databases that include populations from South Asia, while others may have limited representation. A larger and more diverse database generally leads to more accurate results.

Type of DNA Test: Different types of DNA tests can provide different insights into ancestry. Autosomal DNA tests, which examine genetic material inherited from both parents, are commonly used for ancestry testing. However, mitochondrial DNA (mtDNA) and Y-chromosome DNA (Y-DNA) tests can provide specific information about maternal and paternal lineages, respectively.

Historical Context: Understanding historical migrations, trade routes, and cultural exchanges in South Asia can help interpret DNA test results accurately. For example, migrations of Indo-Aryans, Dravidians, Persians, Central Asians, and Europeans have all contributed to the genetic diversity of the region.

Limitations: It's important to recognize the limitations of DNA testing for ancestry. While DNA can provide insights into genetic heritage, it cannot provide a complete picture of one's family tree or cultural identity. Additionally, DNA testing may not be able to identify more recent ancestors beyond a certain number of generations due to genetic recombination and dilution over time.

Overall, DNA testing can offer valuable clues about one's ancestry and help individuals explore their heritage, but it's essential to approach the results with an understanding of their limitations and to complement genetic findings with historical and genealogical research.

Tuesday, February 27, 2024

جذباتیت اور سازشی تھیوریز کا عروج

پاکستانی معاشرے کا ایک مسلہ جذباتیت اور پھر شعور کی کمی بھی ہے۔ عربی میں لکھی ہر تحریر کو قران سمجھنا جہالت سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ دنیا میں جن ممالک میں بھی انارکی اور پھر خانہ جنگی کی تباہی آئی وہاں معاشی حالت خراب ہونے کے ساتھ ساتھ بلکل ایسی ہی افواہ سازی اور جذباتیت کا عروج ہوتا ہے۔ آپ جب پاکستانی سماج پر غور کریں تو یہی پریشانی لاحق ہوجاتی ہے-  اس سماج میں پڑھے لکھے لوگ بھی ایک دوسرے کو سمجھانے اور ٹھنڈا کرنے کی بجائے پیٹرول کے ڈپو پر ٹہر کے آگ سے کھیل کر سنسنی پھیلا رہے ہیں۔ کبھی QR کوڈ پر مشتعل ہو جانا اور کبھی قمیض پر لکھے عربی الفاظ پر اشتعال، یہ سب ایک شعور سے دور اور جنونی معاشرے کی علامات ہیں- 


کبھی افغانستان اور شام کے ان لوگوں کی داستانیں سنیں جو خانہ جنگی کی تباہی سے گذرے ہیں۔ پاکستان پچیس کروڑ کی کثیر آبادی کا ملک ہے، خدا نہ کرے یہ ملک اس طرف نکل پڑے۔ پاکستانیوں کو اپنی معاشرتی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور خوامخواہ کی سازشی تھیوریز اور افواہوں کو پھیلانے کا حصہ بننے سے بہتر ہے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے معاشرے میں مثبت کردار ادا کریں اور جذبات کو ٹھنڈا کریں-


مسلہ اختلاف کا نہیں ہے مسلہ یہ بنتا ہے کے اختلاف کو کس طرح فیس کرنا ہے اور اپنے سے مختلف سوچ والے کے ساتھ بات کس طرح کرنی ہے اور سیاسی و نظریاتی اختلاف کے ہوتے ہوئے بھی کس طرح سماجی معاملات اور ورکنگ ریلیشنز کو نارمل رکھنا ہے-



Sunday, February 18, 2024

اجتماعی انسانی شعور کا ارتقا اور سیاسی اسلام


انسانی تہذیب اور علوم کے ارتقا پر غور و فکر سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ مجموعی طور پر آج انسانی تہذیب سا ٹیکنالوجی اور تمدن کے میدان میں جس مقام پر پہونچی ہے، اس میں ہر خطے اور ہر قوم کا کچھ نہ کچھ حصہ اور شراکت ہے- ہم انسانوں نے ایک دوسرے کے خلاف جنگوں اور قتل و غارت کے باوجود مسلسل ایک دوسرے کے تجربات اور علوم سے استفادہ کرتے ہوے اجتماعی انسانی سفر بھی جاری رکھا ہوا ہے- ہم اپنی آسانی کے لیے جن کو مغربی، مشرقی، عربی، اسلامی تہذیب کے خانوں میں تقسیم کرتے ہیں، یہ مختلف رنگ تو ضرور رکھتے ہیں لیکن سب نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے-  ایک دوسرے کے تجربات اور علوم سے سیکھنے کی اسی خوبی کے سبب انسان اتنی ترقی کر سکا ہے، ورنہ ہر قوم دوبارہ پیا ایجاد کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرتی رہتی-

اسی اجتماعی انسانی شعور کے تتیجہ میں انسان نے اجتماعی زندگی کے کاروبار چلانے کے لیے سیاست میں دو طریقہ کار بناے ہیں

پرامن انتقال اقتدار کے لیے جمہوریت اور ووٹ کا طریقہ کار

ریاست کے معملات کو مذھبی اداروں اور تعصب سے دور رکھنا

آج ہم جس کو سیکولر جمہوری نظام مملکت کہتے ہیں اسکی بنیاد یہی دو طریقہ کار ہیں- یعنی مذھب فرد کا انفرادی معاملہ ہے، اجتماع کو کلمہ پڑھانا ریاست کا کام نہیں ہے- ریاست اس میں غیر جانبدار رہے گی، تاوقتکہ کے کوئی فرد یا گروہ اپنے مذہبی نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کی طرف نہ چل پڑے- اسی طرح جمہوریت کو اکثریت کے جبر یا اکثریت پسندی سے بچانے کے لیے مزید سوچ بچار کی بحث بھی جاری ہے-  یہ نظام بہت سے ممالک اور معاشروں میں کامیابی سے رائج ہو چکا ہے، اس میں وقت کے ساتھ ساتھ ارتقائی مراحل سے مزید بہتری آتی رہے گی-

بیسویں صدی میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں دو بری ڈیولپمنٹس ہوئیں- ایک تو آزاد قومی ریاستوں کا وجود سامنے آیا (گو کہ قومی ریاست کی اکیڈمک تعریف پر مکمل طور پر کوئی بھی شائد پوری نہ اترے، لیکن یہ یہاں موضوع نہیں ہے)- دوسرا یہ ہوا کہ دنیا سرمایہ دارانہ اور اشتراکی بلاکس میں تقسیم ہوگئی- ایسے میں کچھ اسلامی علما  نے سرمایہ دارانہ جمہوریت اور اشتراکیت کے مقابل اسلامی ریاست کا نظریہ ایجاد کیا جس میں مذہب کو کو بنیاد بنا دیا گیا- گویا جو مسلہ اجتمائی انسانی شعور کے سبب کافی حد تک حل ہو چکا تھا اسکو مسلم معاشروں میں دوبارہ اٹھا دیا- جب  سرمایہ دارانہ جمہوری ممالک کے بلاک نے غور کیا تو انکو سیاسی اسلام کی تعبیر مسلم ممالک میں اپنے مفاد میں لگی تاکہ مسلمان ممالک کو اشتراکیت کے مقابل اپنے ساتھ ملایا جاے- اور پھر انہوں نے بھی اس سیاسی اسلام کی نشرواشاعت میں اپنا حصہ بھی ڈالا- اس نۓ سیاسی اسلام کے خالقوں نے جن میں مولانا مودودی اور سید قطب نمایاں تھے نے "اقامت دین" کو دین اختیار کرنے کے معنی سے نکال کر دین نافذ کرنے کے معنی کے طور پر پیش کیا اور اسکو اجتماعی سطح پر مسلمانوں کا بنیادی فریضہ کہہ کر زندگی کا نصب العین قرار دے دیا- میں یہاں مولانا مودودی کی دو کتب کا حوالہ دینا مناسب سمجھتا ہوں- ایک تو قران کی چار بنیادی اصطلاحات اور دوسری اسلامی ریاست- ان میں "الدین" کو نہ صرف ریاست کے ہم معنی بنا دیا بلکہ ریاست میں "اقامت دین" کے نفاذ سے انکار کو شرک کے مترادف ٹہرا دیا گیا-   

کچھ ہم عصر اسلامی سکالرز نے اس نۓ سیاسی اسلام کو خوش آمدید کیا اور کچھ نے اس پر بنیادی اعتراضات اٹھاتے ہوے رد کردیا، یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے، صرف مولانا وحیدالدین کی اس موضوع پر لکھی گئی کتاب "تعبیر کی غلطی" کا حوالہ دینا مناسب سمجھتا ہوں- جس میں مولانا مودودی کے سیاسی اسلام کے نظریہ کو چودہ سو سال کے مسلم مفسرین اور قران و سنت کی روشنی میں رد کیا گیا ہے- قرآن کے طالبعلم جانتے ہیں کے قرآن کوئی سیاسی یا معاشی نظام ہرگز نہیں دیتا- البتہ انسان کی ہدایت کے لیے اس میں سے کچھ رہنما اصول ضرور اخذ کئے جا سکتے ہیں- اسلام انفرادی سطح پر روحانی عبادات اور اخلاقیات کا ایک ہدایت نامہ ہے جس میں انسان کو اپنی عقل کے استعمال کی بار بار تاکید کی گئی ہے- یقینا جب افراد اس ہدایت پر عمل کریں گے تو اس سے ایک تہذیب بھی تشکیل پاۓ گی جس کا ریاست احترام کرے گی لیکن "الدین" ریاست کے اداروں کا نعم البدل ہرگز نہیں ہے اور دین کو جبریہ لوگوں پر نافذ نہیں کیا جاسکتا اور یہ قران کا ہی دیا ہوا اصول ہے- قرآن کے یوم الحساب کے عقیدے کی موجودگی میں ہمیں اپنی دین کی تفہیم کو جبر سے سب پر نافذ کرنے کو کوئی حق نہیں ہے-

دوسری طرف مذہبی پیشوائیت اور سیاسی اسلام کے داعی جس کو شریعی قانون کہتے ہیں- دارصل اس کی تشکیل بھی رسول اللہ کے وصال کے سو ڈیڑھ سو سال بعد کی ہے- اس کی حثیت ان علماء کی اپنی ذاتی راے اور اپنی تفہیم سے زیادہ کچھ بھی نہیں، ان علماء کے درمیان اس تفہیم اور تفسیر میں شدید اختلافات بھی ہیں- انہی اختلافات کی بنا پر مسالک اور فرقے وجود میں آے- یہ اختلافات زیادہ تر نجی معاملات سے ہی مطلق ہیں- اگر ہم مذہب کو اپنی اصل جگہ یعنی اپنی ذات کے اعمال، اخلاقیات اور عبادات تک محدود رکھیں تو یہ اختلافات اجتماعی زندگی میں تصادم کا باعث نہیں بنیں گے- یہی کچھ مسلمان معاشروں میں صدیوں کی پریکٹس رہی ہے- سلطان یا خلیفہ اپنے زمانے کے حساب سے امور سلطنت چلاتے تھے اور لوگ حسب ضرورت اپنے مسلک کے علماء سے نجی معاملات میں راہنمائی لے لیتے تھے- اس طرح آج کے جمہوری دور میں اجتماعی معاملات اجتماعی شعور سے طے کئے جائیں اور اس میں اگر مذہبی پیشوائیت کے پاس بھی کوئی تجاویز ہیں تو وہ بھی اپنی بات اور دلیلیں رکھ دیں، لیکن انکی دی گئی تجاویز فائنل اتھارٹی نہیں ہوسکتیں- اگر مذہب کو فائنل اتھارٹی مان لیا جاے گا تو پھر شہریوں کے حالات دائش کے زیر قبضہ اسلامی ریاست اور طالبان کے امارت اسلامی افغانستان سے مختلف نہیں ہونگے، جہاں غلام اور لونڈیوں کا جواز بھی شریعت سے نکالا جا سکے گا اور لڑکیوں کی تعلیم بھی غیر اسلامی قرار دی جا سکے گی-

ہم ابتدائی دور کے مسلمانوں کے اجتماعی نظام پر غور کریں تو انکا نظام اپنے حالات اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق ایک صحرائی قبائلی نظام تھا جسکی بنیاد "خلیفہ قریش میں سے ہوگا" سے لیکر جزیات تک سب معاملات اپنے حالات اور زمانے کے مطابق تھے- مسلمان ممالک اور معاشرے قرآن و سنت اور اس دور سے اپنے اجتماعی نظام کے لیے کچھ رہنما اصول تو اخذ کر سکتے ہیں لیکن اس عہد کو اتھارٹی سمجھ کر نافذ کرنے کی کوشش کسی طور قابل عمل نہیں ہے- اگر مسلمانوں نے اس دنیا میں امن اور خوشحالی سے رہ کر ترقی کرنی ہے تو مسلمان ممالک کو اپنے اجتماعی نظام کو سیکولر اور جمہوری اقدار پر استوار کرنا پڑے گا، جہاں اسلام کی ثقافتی اقدار کی ضمانت تو ہو لیکن مذہبی پیشوائیت اور مذہب کا جبر اجتماعی زندگیوں پر ہرگز اثر انداز نہ ہوسکے- اپنے عہد کے اجتماعی انسانی شعور پر بھروسہ ہی بہتر حل ہے



Saturday, January 20, 2024

مذہبی شدت پسندی اور سیاسی اسلام کا اقامت دین کا نظریہ

دین میں جبر نہیں اور لكم دينكم ولي دين  والے قرانی اصول 19ویں صدی تک اسلامی فکر کی بنیاد تھی۔ لیکن بیسویں صدی میں اسلامی فکر میں سیاسی اسلام کو متعارف کروانے والے چند  بڑے اور جید علما کا ظہور ہوتا ہے جنہوں نے اقامت دین اور اسکے لئے اقتدار کے حصول کو اسلام کی اولین ترجیح بنادیا۔ ان علماء میں اخون المسلمون والے سید قطب شہید اور حسن البنا کے ساتھ ساتھ برصغیر سے، مولانا مودودی، اور ڈاکڑ اسرار صاحب نمایاں ہیں، اورشعیہ اسلام میں امام خمینی اور انکے عم عصر علما شامل ہیں۔

طالبان، دائش اور اسی طرح کے دیگر انتہاپسند اسلامی گروہوں کی فکری بنیاد بھی یہی سیاسی اسلام اور اسکی تفہیم ہے۔ یہ فکری انتشار اب اس قدر بڑھ چکا ہے کے مسلمان آپس میں بھی سر تن سے جدا سے کم بات نہیں کرتے۔ مودودی صاحب کی تمام تحریروں کا حاصل یہی ہے کے اقامت دین کے لیے جہاد اور قتال مسلمان کی زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔ اگر کسی کو میری رائے سے اختلاف ہے تو میرا مشورہ ہوگا کہ انکی صرف ایک کتاب توجہ سے پڑھ لیں “قران کی چار بنیادی اصطلاحات”  اس کتاب میں الٰہ ، رب ، عبادت اور دین کی اصطلاحات کو اقامت دین کے لئے حصول اقتدار کے ساتھ اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کے مسلمان کی زندگی کا بنیادی مقصد دنیا میں اسلام کے غلبہ کے لئے جدوجہد کا کرنا ہے اور اس نظام کی راہ میں جو بھی رکاوٹ آئے اس سے جنگ کرنی ہے۔ مودودی صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کے الہ اور رب صرف وہی ہوتا ہے جسکا اقتدار کائنات اور انسانوں پر ہو۔ اور اگر ہم اسکا حکم یعنی شریعت کا نظام انسانوں پر نافذ نہیں کرتے تو گویا ہم اسکی الٰہیت اور ربوبیت سے انکار کرتے ہیں یعنی شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں آج جب ہم مختلف سنی مسالک کو دیکھتے ہیں تو صورتحال یہ ہے کے جن روائتی علماء نے مودودی صاحب کی فکر سے علمی اور عملی اختلاف کیا تھا انکے مسالک کی تنظیمیں بھی آج عملی طور پر مودودی صاحب کی اقامت دین کی تفہیم کو ہی بنیادی دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنے مسلک کے غلبہ کے لئے سیاسی گروہ بنائے بیٹھے ہیں۔

مولانا وحیدالدین صاحب (جنکا چند برس پہلے بھارت میں انتقال ہوا) نے مودودی صاحب کی اس فکر کی علمی غلطیوں کی نشاندھی ۱۹۶۳ میں اپنی تصنیف “تعبیر کی غلطی” میں بہت مدلل طریقے سے بیان کی اور پھر اسکے بعد بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا۔ اس کتاب کا پہلا حصہ مودودی صاحب کے ساتھ انکی خط و کتابت ہے اور دوسرے حصہ میں مودودی صاحب کی تفہیم پر انہوں نے اپنا مقدمہ پیش کیا ہے۔ مولانا وحیدالدین صاحب کا بنیادی نکتہ یہ ہے کے اسلام کا مقصد تعمیر  انسان ہے جس میں ایک خاص نظم میں اخلاقیات کا نظام بھی ہے جو اپنے وقت کے تقاضوں کے ساتھ اپنی ترجیحات مرتب کرتا ہے لیکن اقامت دین کا جو تصور مودودی صاحب دیتے ہیں اور جس طرح وہ اسکو دین کی بنیاد بناتے ہیں یہ مودودی صاحب کے اپنے ذہن کی اختراح ہے اسلام کی منشا نہیں ہے۔



دین آدمیت - جوش ملیح آبادی

دین آدمیت (جوش ملیح آبادی)   جوش ملیح آبادی کی طویل نظم “دین آدمیت” سے منتخب اشعار   جب کبھی بھولے سے اپنے ہوش میں ہوتا ہوں میں دیر تک بھٹکے...