Sunday, October 5, 2025

منشیِ بلاسفہمی

منشیِ بلاسفہمی
قاتل بھی ہو، پھر بھی مظلوم کہلائے،
گستاخ بھی ہو، پھر بھی عاشق بن جائے!
یہ کیسا زمانہ، یہ کیسی روش،
جہالت نے علم پہ خنجر چلائے!

دین کا سوداگر، ہَوَس کا اسیر،
نفس کا خادم، خود کو کہے امیر۔
زخم بھی دے، پھر مرہم کی بات کرے،
جھوٹ کے سہارے حق کی بات کرے۔

ایسے بدکردار کو دنیا کہے “راو عبدالرحیم”،
مگر عوام جانتے ہیں، یہ ہے منشیِ بلاسفہمی!
جو ناپتا ہے ایمان کو پیمانوں سے،
اور شور مچاتا ہے عاشقی اعلانوں سے۔

کیسا ہوا وہ عاشقِ رسول کا!
خوں جس نے کیا آلِ رسول کا!
اس کا کردار زہر کی پھونک سا،
اور دل میں بس ابلیس کا قانون سا۔

لفظوں کی منڈی میں ایمان بِکتا ہے،
دین کے نام پہ شیطان بکتا ہے۔
وہ مکّار، ریاکارِ بے ضمیر،
جو ظلم کو کہے تقدیر کی لکیر۔

اے منشیِ بلاسفہمی!
وقت تیرا گزرے گا، پر نام نہ مٹے گا۔
تاریخ کے اوراق پہ تُو،
دین‌فروشوں کے قبیلے کا خوں‌خوار کہلائے گا۔

کب تک چلے گا یہ فریبِ نظر؟
کب تک چھپے گا یہ سچ کا سفر؟
وقت کے آئینے میں سب عیاں ہوگا،
منشی کا چہرہ بھی ننگا بیان ہوگا۔

اے اہلِ حق!
اُٹھو، کہ جھوٹ کے ایوان ہلانے ہیں،
وہ منشی جو ایمان بیچتا ہے،
اُس کے پیمانے جلانے ہیں!
یہ جنگِ قلم بھی ہے، یہ جنگِ ضمیر بھی،
اب سچ بولنا ہے، سب سے بڑی تدبیر بھی۔

(اسجد بخاری – پانچ اکتوبر ۲۰۲۵)



 

Thursday, September 4, 2025

جتماعی انسانی شعور کا ارتقا اور سیاسی اسلام

 

انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ آج جس علمی، سائنسی اور تہذیبی مقام پر انسانیت پہنچی ہے، اس میں ہر خطے، ہر قوم اور ہر تہذیب نے کسی نہ کسی صورت میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ انسانی تاریخ جنگوں، تصادموں اور قتل و غارت سے ضرور بھری پڑی ہے لیکن اس سب کے باوجود انسان ہمیشہ ایک دوسرے کے تجربات اور علوم سے استفادہ کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجتماعی انسانی شعور کا ارتقا ممکن ہوا۔

ہم اپنے فہم کو آسان بنانے کے لیے تہذیبوں کو ’’مشرقی‘‘، ’’مغربی‘‘، ’’اسلامی‘‘ یا ’’عربی‘‘ خانوں میں بانٹ دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان سب نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا۔ اگر انسان ہر بار اپنی توانائی دوبارہ ’’پہیہ ایجاد‘‘ کرنے پر صرف کرتا تو شاید آج ہم اس سطح کی ترقی کو کبھی نہ پہنچ پاتے۔

اجتماعی شعور اور سیاست کی ارتقا یافتہ شکل

اجتماعی انسانی شعور کے نتیجے میں ریاست اور سیاست میں دو بڑی بنیادیں سامنے آئیں:

پرامن انتقالِ اقتدار کے لیے جمہوریت اور ووٹ کا نظام۔
ریاست کے معاملات کو مذہبی اداروں اور تعصب سے الگ رکھنا۔

ان دونوں اصولوں نے مل کر وہ نظام تشکیل دیا جسے آج ہم سیکولر جمہوریت کہتے ہیں۔ اس نظام میں مذہب فرد کا انفرادی معاملہ ہے، جبکہ ریاست کا کام سب شہریوں کے حقوق اور آزادی کی ضمانت دینا ہے۔ ریاست کسی فرد یا گروہ کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنے مذہبی نظریات دوسروں پر مسلط کرے۔

بیسویں صدی میں پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا نے دو بڑی تبدیلیاں دیکھیں:

قومی ریاستوں کا قیام
دنیا کا دو بلاکس میں تقسیم ہونا: سرمایہ دارانہ جمہوری بلاک اور اشتراکی بلاک۔

اسی دور میں کچھ مسلم علما اور مفکرین نے ’’اسلامی ریاست‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔ ان کے خیال میں سرمایہ دارانہ جمہوریت اور اشتراکیت دونوں ناقص نظام ہیں، لہٰذا مسلمانوں کے لیے الگ سیاسی نظام ہونا چاہیے جس کی بنیاد مذہب پر ہو۔

سیاسی اسلام کی تشکیل

اس نئے سیاسی اسلام کی تشکیل میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید قطب جیسے مفکرین نمایاں ہیں۔ انہوں نے ’’اقامتِ دین‘‘ کو محض ’’دین پر عمل کرنے‘‘ کے بجائے ’’ریاستی سطح پر دین نافذ کرنے‘‘ کے معنی میں پیش کیا اور اس کو اجتماعی سطح پر مسلمانوں کا بنیادی فریضہ قرار دیا۔ مولانا مودودی کی کتب "قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات" اور "اسلامی ریاست" میں یہ مؤقف واضح نظر آتا ہے۔ انہوں نے ’’الدین‘‘ کو ریاست کے ہم معنی بنا کر اس کے نفاذ سے انکار کو شرک کے مترادف قرار دیا۔

اس تعبیر نے مسلم دنیا میں نئی فکری بحث کو جنم دیا۔ کچھ علما اور حلقے اس سے متاثر ہوئے جبکہ بعض نے اس پر بنیادی اعتراضات اٹھائے۔ مولانا وحید الدین خان نے اپنی کتاب "تعبیر کی غلطی" میں مودودی کے تصورِ سیاسی اسلام کو قرآن و سنت اور مسلم علمی روایت کی روشنی میں رد کیا۔

قرآن کا طالب علم جانتا ہے کہ قرآن کسی سیاسی یا معاشی نظام کا خاکہ پیش نہیں کرتا بلکہ انسانوں کے لیے ہدایت اور اخلاقی اصول فراہم کرتا ہے۔ قرآن بار بار عقل کے استعمال پر زور دیتا ہے۔ اس کا مقصد فرد کی اصلاح اور اخلاقی تربیت ہے۔ یہی فرد جب اپنی عملی زندگی میں قرآنی ہدایات پر عمل کرے گا تو اس سے ایک صالح معاشرہ تشکیل پائے گا۔ لیکن ’’الدین‘‘ کو ریاستی اداروں کا متبادل قرار دینا نہ قرآن کا مقصد ہے اور نہ ہی اسلامی تاریخ اس کی تائید کرتی ہے۔

مذہبی پیشوائیت اور شریعت

سیاسی اسلام کے داعی شریعت کے نفاذ پر زور دیتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ فقہ اور شریعت کی موجودہ تدوین زیادہ تر رسول اللہ ﷺ کے وصال کے تقریباً ایک سو پچاس سال بعد کی ہے۔ یہ مختلف علما کی آرا اور اجتہادات کا نتیجہ تھی، اور انہی اختلافات کی بنیاد پر مختلف فقہی مسالک وجود میں آئے۔ اس لیے شریعت کی تشریحات انسانی فہم سے زیادہ کچھ نہیں۔

اسلامی تاریخ میں صدیوں تک مذہب بنیادی طور پر افراد کی نجی زندگی اور عبادات تک محدود رہا۔ سلطنت اور خلافت کے نظام اپنے دور اور حالات کے مطابق چلتے رہے۔ عوام حسبِ ضرورت اپنے مسلک کے علما سے نجی معاملات میں رجوع کرتے تھے، لیکن اجتماعی نظام زیادہ تر سیاسی اور سماجی تقاضوں پر مبنی ہوتا تھا۔

اگر آج مذہب کو اجتماعی معاملات میں فائنل اتھارٹی مان لیا جائے تو نتیجہ داعش کی نام نہاد ’’اسلامی ریاست‘‘ یا طالبان کی ’’امارتِ اسلامی افغانستان‘‘ جیسا ہوگا جہاں غلامی، لونڈیوں کی خرید و فروخت، یا خواتین کی تعلیم پر پابندی جیسے اقدامات ’’شریعت‘‘ کے نام پر جائز قرار دیے جاتے ہیں۔

ابتدائی دور کے مسلمان اور آج کی دنیا

ابتدائی دور کا مسلمانوں کا سیاسی و اجتماعی نظام اپنے وقت کے مطابق ایک صحرائی قبائلی ڈھانچے پر قائم تھا۔ ’’خلیفہ قریش میں سے ہوگا‘‘ سے لے کر دیگر جزیات تک سب اسی دور کی ضرورتوں کے مطابق تھے۔ آج کے مسلمان ان سے رہنمائی تو ضرور لے سکتے ہیں لیکن ان کو حرفِ آخر سمجھ کر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔

اگر مسلم دنیا کو امن، خوشحالی اور ترقی درکار ہے تو اسے اپنے اجتماعی نظام کو سیکولر اور جمہوری اقدار پر استوار کرنا ہوگا۔ اس نظام میں اسلام کی ثقافتی اور اخلاقی اقدار کا احترام تو ہوگا مگر مذہبی پیشوائیت اور مذہبی جبر اجتماعی زندگی پر مسلط نہیں ہو سکے گا۔

اجتماعی انسانی شعور کا یہی ارتقائی سفر ہمیں سکھاتا ہے کہ اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق اجتماعی نظام تشکیل دینا ہی انسانیت اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے بہتر حل ہے۔

Tuesday, September 2, 2025

لیاقت علی خان کا قتل — ایک نیا زاویہ نظر

پاکستان کی تاریخ کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا سیاسی سانحہ 16 اکتوبر 1951 کو پیش آیا، جب ملک کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔

یہ واقعہ صرف ایک قتل نہیں بلکہ ایسا راز ہے جس پر آج بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں

قاتل کون تھا؟
کیا یہ ایک فرد کی انفرادی کارروائی تھی؟
یا اس کے پیچھے کوئی بڑی سازش کارفرما تھی؟
سازش کہاں بنی، اور اصل فائدہ کس کو ہوا؟

حال ہی میں شائع ہونے والی ڈاکٹر فاروق ببرکزئی کی کتاب
“The Assassination of Liaquat Ali Khan: A Critical Look at the Early History of Pakistan, 1947–1952”
انھی سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ہے۔

اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ مصنف خود سعد اکبر کے بیٹے ہیں—وہی شخص جس پر لیاقت علی خان کے قتل کا الزام عائد ہوا تھا اور جو جائے واردات پر ہی مارا گیا۔
 سعد اکبر کا خاندان افغانستان سے ہجرت کر کے ایبٹ آباد میں آباد ہوا تھا، اور وہ اس وقت کی پاکستانی ریاست کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ وابستہ تھے، جہاں سے وہ بھاری مالی مراعات حاصل کرتے تھے۔

ڈاکٹر فاروق ببرکزئی نے اس کتاب میں نہ صرف اپنی ذاتی اور خاندانی یادداشتوں کو قلم بند کیا ہے بلکہ پاکستان کے ابتدائی پانچ برسوں کی سیاست کو بھی تحقیقی انداز میں پرکھا ہے

قیامِ پاکستان کے بعد کی سیاسی کشمکش؛  کشمیر کی پہلی جنگ اور اُس کے اثرات؛ راولپنڈی سازش کیس اور طاقت کی رسہ کشی، سب سے بڑھ کر لیاقت علی خان کے قتل کے پس منظر میں چھپی ہوئی سازشوں اور محرکات پر ایک جرات مندانہ بحث ہے-

یہ کتاب محض تاریخ کا تذکرہ نہیں بلکہ ایک متبادل زاویہ نظر ہے—جو قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کہیں اصل حقائق ہمیشہ کے لیے پردوں میں تو نہیں چھپا دیے گئے۔
اور جب ان پہلوؤں کو بعد کے سیاسی واقعات سے جوڑا جائے تو پاکستان کی تاریخ کی ایک دھندلی تصویر رفتہ رفتہ صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔

یہ کتاب اُن سب کے لیے نہایت اہم ہے جو پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ، سیاسی تاریخ اور طاقت کی کشمکش کو گہرائی سے سمجھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔



Wednesday, August 27, 2025

غزل

 زمین کے خداؤں سے کیوں اُلجھتا ہوں
نہ وہ ہیں آج تک بدلے نہ میں بدلتا ہوں
 
فرشتے زندہ نہ مجھ کو اُٹھا لے جائیں
گھر سے اس لئے باہر کم نکلتا ہوں
 
خیال و خواب کی وادی کا مُسافر ہوں
حقیقتوں کی ہر ایک راہ میں بھٹکتا ہوں
 
مجھ کو کیوں یہ غم ہے اگر سارا شہر جلتا ہے
چراغ بن کر میں تو اپنی ہی جھونپڑی میں جلتا ہو
 
میں اوروں سے انصاف کیا مانگوں
میں تو کئی بار اپنی  گواہی بدلتا ہوں
 
گر اُسے کوئی غم ہے تو بس یہی اسجد
کہ اُس زمانے میں بھی سچی بات کرتا ہوں

Tuesday, August 19, 2025

Restoring Social Balance: Who Holds the Responsibility?

Pakistan’s Army Chief admits the nation was more balanced before 1979, but history shows it was the state’s own policies—military takeovers, political engineering, and the weaponization of religion—that fractured society. The real test now is whether those who caused the imbalance have the courage to correct it.

In recent weeks, Pakistan’s Army Chief, General Asim Munir, has publicly acknowledged on more than one occasion that Pakistani society, prior to 1979, was relatively balanced. Despite differences of opinion, tolerance was still a defining feature of that era. But in the years that followed, religious extremism, political instability, and growing intolerance deeply fractured the social fabric.

This admission is important in itself, but it also raises a critical question: who bears responsibility for this decline? A glance at history makes it evident that since the military intervention of July 1977, supreme authority has rarely, if ever, been handed over fully to elected representatives. Most major national and international decisions have instead been shaped by the priorities of the military establishment rather than the public mandate.

During General Zia-ul-Haq’s regime, religious elements were deliberately incorporated into state policies. Under the banner of the Afghan Jihad, religious groups were provided with military training, financial resources, and official patronage. In subsequent decades, policies such as “strategic depth,” the distinction between “good Taliban” and “bad Taliban,” and the use of religion as a weapon against the state’s own citizens inflicted irreparable damage on Pakistani society.

It follows, then, that those who played the central role in this disruption now bear the moral and national responsibility to reassess their policies. Mere acknowledgment of past mistakes is not enough; what is urgently needed are concrete steps to guide the nation back toward a balanced, peaceful, and healthy social order.

The Way Forward: Some Essential Measures

1.    State Transparency and Public Representation: All major national decisions must be taken by elected representatives through parliament, not by forces operating from behind the scenes.

2.    Separating Religion from Politics: Religion should no longer be used as an instrument of political engineering or power struggles. Matters of faith must remain a personal domain.

3.    Educational Reform: Curricula must be redesigned to promote tolerance, diversity, and critical thinking so that future generations embrace dialogue rather than extremism.

4.    A Clear Policy on Armed Groups: The distinction between “good” and “bad” militants must end. Without a uniform approach to militancy, state authority will remain compromised.

5.    Democratic Continuity: The strength of Pakistan’s social balance lies in the continuity of the democratic process and the supremacy of constitutional institutions. All state organs, including the military, must operate strictly within their constitutional boundaries.

Pakistan was once known for its balance and tolerance. If we truly have the courage to learn from our mistakes, that balance can indeed be restored. But this will only happen if the centers of power change their priorities and genuinely recognize the people’s mandate as the ultimate source of authority.

Otherwise, history will be compelled to record that those entrusted with preserving balance were, in fact, the very architects of its undoing.

By: Asjad Bukhari



معاشرتی توازن کی بحالی: ذمہ داری کس کی ہے؟

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے حالیہ دنوں میں ایک سے زائد مرتبہ یہ اعتراف کیا ہے کہ 1979 سے پہلے کا پاکستانی معاشرہ خاصا متوازن تھا۔ اُس دور میں اختلافِ رائے کے باوجود برداشت کا عنصر غالب تھا، لیکن اس کے بعد مذہبی شدت پسندی، سیاسی انتشار اور عدم برداشت نے معاشرتی ڈھانچے کو بری طرح مجروح کر دیا۔

یہ اعتراف اپنی جگہ اہم ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اس انحطاط کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ جولائی 1977 کی فوجی مداخلت کے بعد سے اقتدارِ اعلیٰ کبھی بھی مکمل طور پر عوامی نمائندوں کے سپرد نہیں کیا گیا۔ بڑے قومی و بین الاقوامی فیصلے اکثر عوامی مینڈیٹ کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات کے مطابق کیے گئے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں ریاستی پالیسیوں میں مذہبی عناصر کو باقاعدہ داخل کیا گیا۔ افغان جہاد کے نام پر مذہبی گروہوں کو عسکری تربیت، مالی وسائل اور سرکاری سرپرستی فراہم کی گئی۔ بعد کے برسوں میں "اسٹریٹجک ڈیپتھ" کی پالیسی، "گڈ طالبان، بیڈ طالبان" کی تفریق، اور مذہب کو اپنے ہی شہریوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے جیسے اقدامات نے پاکستانی معاشرے میں ایسی دراڑیں ڈال دیں جو آج بھی بھرنے کا نام نہیں لیتیں۔

یقیناً وہی ہاتھ جو اس بگاڑ میں شریک رہے ہیں، اب ان پر یہ اخلاقی اور قومی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی پالیسیوں کا ازسرِ نو جائزہ لیں۔ محض ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے قوم کو دوبارہ ایک متوازن اور پُرامن راہ پر لانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

آگے بڑھنے کے لیے چند ناگزیر اقدامات

ریاستی شفافیت اور عوامی نمائندگی

تمام قومی فیصلے عوامی نمائندوں اور پارلیمان کے ذریعے ہوں، پسِ پردہ قوتوں کے ذریعے نہیں۔

مذہب کو سیاست سے الگ کرنا
مذہب کو طاقت کے کھیل یا سیاسی انجینئرنگ کا ذریعہ بنانے کی روش ترک کی جائے۔ عقیدے کو صرف فرد کا ذاتی معاملہ سمجھا جائے۔

تعلیمی اصلاحات
نصابِ تعلیم میں برداشت، تنوع اور تنقیدی سوچ کو فروغ دیا جائے تاکہ نئی نسل شدت پسندی کے بجائے مکالمے کی روایت اپنائے۔

مسلح گروہوں کے خلاف غیر مبہم پالیسی
گڈ اور بیڈ عسکریت پسندوں کی تقسیم ختم کیے بغیر ریاستی رٹ قائم نہیں ہو سکتی۔ ہر قسم کی عسکریت پسندی کے خلاف یکساں حکمتِ عملی ناگزیر ہے۔

جمہوریت کا تسلسل
سیاسی عمل میں تسلسل اور آئینی اداروں کی بالادستی ہی معاشرتی توازن کی ضمانت ہے۔ فوج سمیت تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کردار ادا کریں۔

پاکستانی معاشرہ ماضی میں توازن اور رواداری کی مثال رہا ہے۔ اگر ہم نے اپنی غلطیوں سے سچ مچ سیکھنے کا حوصلہ پیدا کیا تو یہ توازن دوبارہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب طاقت کے مراکز اپنی ترجیحات کو بدلیں اور عوامی
مینڈیٹ کو اصل قوتِ فیصلہ تسلیم کریں۔

تحریر: اسجد بخاری




ورنہ تاریخ یہ لکھنے پر مجبور ہوگی کہ جنہیں توازن قائم رکھنا تھا، وہی اس بگاڑ کے سب سے بڑے ذمہ دار ثابت ہوئے۔ 

Tuesday, April 22, 2025

‏ترنگڑ: بچپن، صحن اور سمندر

 ‏گرمیوں کی راتوں میں کھلے آسمان تلے سونا ایک الگ ہی لطف رکھتا تھا۔ بچپن کے دنوں میں، جب ہم صحن میں چارپائیاں بچھا کر لیٹتے، تو سونے سے پہلے تاروں بھرے آسمان کو تکتے رہنا ایک معمول تھا۔ اندھیری رات کی خاموشی میں سب سے پہلے ہماری نظریں اُن تین ستاروں کو تلاش کرتیں، جو ایک سیدھی لکیر میں، یکساں فاصلے پر جگمگاتے تھے۔ سرائیکی میں ہم انہیں “ترنگڑ” کہتے تھے۔ ترنگڑ—یعنی تین ایک ساتھ۔ یہ لفظ آج بھی بچپن کی یادوں میں جگمگاتا ہے، بالکل اُن ستاروں کی طرح۔

‏یہی لفظ ہم سکول میں بھی استعمال کرتے تھے۔ جب بھی کوئی تین دوستوں کا گہرا ساتھ ہوتا، تو انہیں بھی “ترنگڑ” کہہ کر پکارا جاتا تھا۔
‏حال ہی میں، ایک اندھیری رات کو سمندر کے کنارے بیٹھا آسمان کی وسعتوں میں گم تھا کہ اچانک نظریں پھر سے “ترنگڑ” کو تلاشنے لگیں۔ اور جب وہی تین ستارے ویسے ہی چمکتے ہوئے دکھائی دیے، تو لمحہ بھر کو جیسے وقت تھم سا گیا۔ ذہن اچانک ماضی کے اُس صحن میں پہنچ گیا، جہاں بچپن کی معصوم آنکھیں انہی ستاروں میں اپنی کہانیاں تلاش کیا کرتی تھیں۔
‏یہ لمحہ محض ایک یاد نہیں تھا - بلکہ بچپن، ماضی، اور اپنی زمین و ثقافت سے جڑنے کا ایک خاموش وسیلہ بن گیا تھا۔
‏یادیں بھی کبھی کبھی ستاروں کی طرح چمک اٹھتی ہیں - بس ہمیں نظر اٹھا کر دیکھنے کی دیر ہوتی ہے۔
‏(یہ تصویر انہی لمحوں کی ہے)


Thursday, January 16, 2025

دین آدمیت - جوش ملیح آبادی

دین آدمیت (جوش ملیح آبادی)

 

جوش ملیح آبادی کی طویل نظم “دین آدمیت” سے منتخب اشعار

 

جب کبھی بھولے سے اپنے ہوش میں ہوتا ہوں میں

دیر تک بھٹکے ہوئے انسان پر روتا ہوں میں

ایشیا والو! یہ آخر کیا خدا کی مار ہے

کل جو گھٹی پی تھی اس پر آج تک اصرار ہے

مسلک اجداد سے وابستگی ایمان ہے

یہ فقط تقلید کے سرسام کا ہذیان ہے

یہ مسلماں ہے، وہ ہندو، یہ مسیحی، وہ یہود

اس پہ یہ پابندیاں ہیں، اور اس پر یہ قیود

شیخ و پنڈت نے بھی کیا احمق بنایا ہے ہمیں

چھوٹے چھوٹے تنگ خانوں میں بٹھایا ہے ہمیں

کوئی اس ظلمت میں صورت ہی نہیں ہے نور کی

مہر ہر دل پر لگی ہے اک نہ اک دستور کی

قابل عبرت ہے یہ محدودیت انسان کی

چٹھیاں چپکی ہوئی ہیں مختلف ادیان کی

پھر رہا ہے آدمی، بھولا ہوا، بھٹکا ہوا

اک نہ اک “لیبل” ہر اک ماتھے پہ ہے لٹکا ہو

خوردنی اشیأ کا بھی یاں اک نہ اک آئین ہے

آم اگر دیندار ہے، تو سنترا بے دین ہے

کیا کرے ہندوستان اللہ کی ہے یہ بھی دین

چائے ہندو، دودھ مسلم، ناریل سکھ، بیر جین

اپنے ہم جنسوں کے کینے سے بھلا کیا فائدہ

ٹکڑے ٹکڑے ہوکے جینے سے بھلا کیا فائدہ

دین کیا ہے، خوف دوزخ، حرص جنت کے سوا

رسم تقویٰ کچھ نہیں جبن و تجارت کے سوا

سینکڑوں حوروں کا ہر نیکی پہ ہے ان کو یقین

سود لینے میں “خدا” سے بھی یہ شرماتے نہیں

بند پانی سے انہیں کیا آسکے بوئے فساد

یہ تو ہیں شخصی خدا کے بندگان خانہ زاد

ان کو اُس اصلی خدا سے دور کی نسبت نہیں

جس کے قبضہ میں زماں ہے، جس کے قدموں پر زمیں

آج تک پہونچی نہیں جس اوج تک چشم خیال

ایک نامعلوم قوت، ایک نادیدہ جلال

جس کا ہر تارا ہے مصحف، جس کا ہر ذرہ کتاب

جس کے دفتر کی ہے زریں مُہر قرص آفتاب

اس کی کوئی ابتدا ہے، اور نہ کوئی انتہا

لیکن ان ارباب مذہب کا نرالا ہے “خدا

وہ خدا جو آدمی سے چاہتا ہے بندگی

تشنگی جس کو بہت ہے خوشنما الفاظ کی

فاتحہ کا نان حلوہ، آئے دن کھاتا ہے جو

انگلیوں پر روز اپنا نام گنواتا ہے جو

سرنگوں رہتا ہے جو اہل فتن کے سامنے

جس کی کچھ چلتی نہیں ہے اہرمن کے سامنے

مجھ کو پوجو مجھ کو چاہو کی صدا دیتا ہے جو

جو نہ چاہے، اس کو دوزخ کی سزا دیتا ہے جو

حکم ہے جس کا کہ یوں انگلی ہلانا چاہیے

جب جماہی آئے تو چٹکی بجانا چاہیے

مر کے جلنا، یا کسی دریا میں بہنا چاہیے

چھینک جب آئے تو معا “الحمد” کہنا چاہیے

جو، اگر یوں خم نہ ہو گردن، تو کرتا ہے بھسم

یوں جبیں کو ٹیک دو، تو مائل جود و کرم

جس کے آگے رقص کرنا، گنگنانا ہے حرام

جس کے آگے قہقہہ کیا، مسکرانا ہے حرام

جس کے آگے کانپنا، آنسو بہانا ہے ثواب

جس کے آگے سر جھکانا گڑگڑانا ہے ثواب

مست ہوتا ہے جو یوں انسان کی تحسین پر

پھن اُٹھا کر جھومتا ہے ناگ جیسے بین پر

فطرت انسان کا خالق ہوکے بھی جو صبح شام

بے خطا انسان سے لیتا ہے کیا کیا انتقام

گاہ آتا ہے یہاں طوفان پر ہوکر سوار

گاہ غصے میں ہلاتا ہے زمیں کو بار بار

جس نے لاکھوں راہبر بھیجے ہدایت کے لئے

روند ڈالا جس نے اس کثرت کو وحدت کے لئے

خون گو سو بار اُس کے آستاں پر بہہ گیا

پھر بھی جو اپنے مشن میں فیل ہوکر رہ گیا

چار دن جو شاد ہے، اور چار دن ناشاد ہے

یہ خدا تو آدمی کے ذہن کی ایجاد ہے

سخت حیراں ہوں، یہ کیسا وہم کا طوفان ہے

اے عزیزو، یہ “خدا” کے بھیس میں “انسان” ہے

مدتیں گزریں کہ عقل انجمن مدقوق ہے

دوستو، ایسا خدا خالق نہیں، مخلوق ہے

 

اُٹھ کھڑے ہوں، آؤ تکمیل عبادت کے لئے

اک نیا نقشہ بنائیں آدمیت کے لئے

آؤ محفل میں جلائیں بھی بصد شان فراغ

نوع انسانی کی مجموعی اخوت کا چراغ

اور کچھ حاجت نہیں ہے دوستی کے واسطے

آدمی ہونا ہی کافی ہے، آدمی کے واسطے

آؤ وہ صورت نکالیں جس کے اندر جان ہو

آدمیت دین ہو، انسانیت ایمان ہو

میں شراب وہم آبائی کا متوالا نہیں

آدمیت سے کوئی شے دہر میں بالا نہیں

(جوش ملیح آبادی)



منشیِ بلاسفہمی

منشیِ بلاسفہمی قاتل بھی ہو، پھر بھی مظلوم کہلائے، گستاخ بھی ہو، پھر بھی عاشق بن جائے! یہ کیسا زمانہ، یہ کیسی روش، جہالت نے علم پہ خنجر چلائے...