پاکستان کی اسلامسٹ سُنی ملائیت شام کی خانہ جنگی اور اب باغیوں کے مکمل کنٹرول کو صرف شیعہ سُنی تنازعہ کی نظر سے دیکھ رہی ہے، جبکہ اسکے پیچھے عوامل اور اثرات فرقہ واریت سے کہیں زیادہ ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کے حافظ الاسد کی بعث پارٹی اور پھر بشار الاسد ڈیکٹیٹر تھے، جنہوں نے دیگر عرب حکمرانوں کی طرح اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ نہایت سختی اور ظلم کا رویہ رکھا، عراق میں صدام، مصر میں انوارالسادات /حُسنی مبارک، سعودی عرب اور گلف ریاستوں کے امیر، سب ہی اس معاملے میں نہلے پہ دہلا رہے۔ حافظ الاسد کا قائم کردہ نظام ڈیکٹیٹرشپ ضرور تھا لیکن خانہ جنگی سے پہلے کا شام کی حکومت کا معاشی پروگرام نیم سوشلسٹ تھا- اس میں عام آدمی کے لئے ریاست کی جانب سے کئی بنیادی ضروریات پہنچانے کا بدوبست بھی موجود تھا۔ مشرق وسطی کے دیگر ممالک کے برعکس شام کے اقتصادی وسائل بہت کم ہیں، لیکن بعث پارٹی کی حکومت کے انتظام کا جائزہ لینے پر معلوم پڑتا تھا کے انہوں نے معاشی وسائل کی تقسیم کا قدرے بہتر بندوبست کر رکھا تھا۔ گوکہ حافظ الاسد شیعہ فرقہ علوی سے تعلق رکھتے تھے لیکن حکومتی اور ریاستی معاملات میں بڑے پیمانے پر فرقہ کی بنیاد پر تعصب نہیں تھا۔
علوی فرقہ اس وقت موضوع بحث نہیں ہے لیکن مختصرا بتا دوں کے شام میں علوی اقلیت کو دیگر مسلمانوں کی جانب سے بہت لبرل یا سیکولر کہا اور سمجھا جاتا ہے، اور اسی بنیاد پر سُنی مسلک کے مذہبی لوگ ان پر شدید اعتراضات بھی کرتے ہیں۔ علویوں کو نصیریہ بھی کہا جاتا تھا، اس کا آغاز نویں اور 10ویں صدی میں ہوا تھا۔ گوکہ حافظ الاسد علوی تھے اور بعث پارٹی پر انکا کنٹرول ضرور تھا لیکن بعث پارٹی ایک عرب نیشنلسٹ اور سوشلسٹ پارٹی رہی یہ علوی فرقہ کی نمائندہ نہیں تھی بلکہ جس طرح شام میں اکثریت سُنیوں کی ہے، بعث پارٹی میں بھی سُنی عوام کی کثیر تعداد ہی ممبر رہی ہے۔ اور 2016 میں خانہ جنگی کے دوران تو کچھ علوی دھڑے کے رہنماؤں نے ایک انتہائی غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے اسد حکومت سے اعلانیہ دوری بھی اختیار کی تھی۔ لیکن دوسری طرف شام میں بعث پارٹی کے سیاسی مخالف اور خاص طور پر اخون المسلمین قسم کے اسلامسٹ نظریات کے لوگ عوام کو احساس دلاتے رہتے تھے کے یہ سُنی اکثریت کا ملک ہے اور علوی حکمران کو ہٹا کر اسکو سُنی اسلامی ریاست بنانا ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔
جس طرح ابتدا میں یاسر عرفات کی الفتح کے مقابل اسرائیل نے حماس کو مضبوط کیا بلکل اسی طرح شام میں بھی انہوں نے اسد حکومت کے خلاف اسلامسٹوں کو سپورٹ کیا۔ اسکی بنیادی وجہ یہ رہی کے شام کی بعث پارٹی اسد خاندان کی زیر قیادت روس کی حلیف ہونے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی آزادی کے اپنے موقف پر قائم تھی۔ اسی سبب امریکہ اور اسرائیل شام سے کبھی خوش نہیں تھے۔ 2010 میں شام میں کئی برسوں کی خشک سالی نے کسانوں کو معاشی طور پر بہت پریشان کیا۔ اوپر سے طویل ڈیکٹیٹرشپ سے تنگ عوام "عرب سپرنگ" کے زیر اثر بڑی تعداد میں بشار الاسد حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے جنکو حکومت نے نہایت سفاکی سے کچلنے کی کوشش کی جسکے نتیجہ میں سعودی عرب/امریکہ/اسرائیل/ترکی کے وسائل سے بہت سے مسلح باغی گروہ ملک میں وجود میں آئے جنکی اکثریت بعد میں دائش کے جھنڈے تلے متحد ہوئی اور جنکے ظلم کی داستانیں سبکو معلوم ہیں۔ اس طویل اور خونی خانہ جنگی میں ترکی سمیت ہر ملک اپنے سیاسی مفادات کے زیراثر مختلف باغی گروہوں کو سپورٹ کرتا رہا۔ اسی طرح روس اور ایران اپنے علاقائی مفادات کے تحفظ میں بشار الاسد کی بقا کی جنگ لڑتے رہے۔ حالیہ مہینوں میں حزب اللہ اور حماس کے خلاف اسرائیل کی کامیابیوں کے بعد ایران بہت کمزور پڑ گیا، ادھر روس کی ساری توجہ یوکرین کی طرف لگ گئی۔ جس کے سبب ان ممالک کی جانب سے بشار الاسد کو ملنے والی عسکری سپورٹ کمزور پڑگئی اور پھر شمال سے ترکی کے حمایت یافتہ گروہ اور دوسری طرف سعودی، امریکی، اسرائیلئ حمایت یافتہ باغی گروہ القائدہ اور دائش کے سابقہ کمانڈر ابو محمد الجولانی کی قیادت میں متحد ہوکر بشار الاسد کی حکومت گرانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
شام میں تبدیلی وسیع تر بین الاقوامی تبدیلیوں کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ یوکرین کے تنازعے سے پیچھے ہٹ رہا ہے، جب کہ روس شام میں اپنے فوجی اڈے خالی کر رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں عالمی ترجیحات کی از سر نو ترتیب کی نشاندہی کرتی ہیں۔
اس سارے تنازعہ کو پاکستان میں، مذہبی عناصر طالبان کے تحت افغانستان کے "اسلامی احیا" کے تسلسل سے تعبیر کررہے ہیں، جو اب شام تک پھیلا ہوا ہے۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ ایک آمر کی گرفت سے نکلنے کے بعد، کیا شام لیبیا اور افغانستان کی طرح مزید گہرے انتشار کی طرف جائے گا، یا وہ ایک نارمل مستحکم نظام حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟ صورتحال بدستور غیر یقینی ہے۔
No comments:
Post a Comment