Saturday, January 20, 2024

مذہبی شدت پسندی اور سیاسی اسلام کا اقامت دین کا نظریہ

دین میں جبر نہیں اور لكم دينكم ولي دين  والے قرانی اصول 19ویں صدی تک اسلامی فکر کی بنیاد تھی۔ لیکن بیسویں صدی میں اسلامی فکر میں سیاسی اسلام کو متعارف کروانے والے چند  بڑے اور جید علما کا ظہور ہوتا ہے جنہوں نے اقامت دین اور اسکے لئے اقتدار کے حصول کو اسلام کی اولین ترجیح بنادیا۔ ان علماء میں اخون المسلمون والے سید قطب شہید اور حسن البنا کے ساتھ ساتھ برصغیر سے، مولانا مودودی، اور ڈاکڑ اسرار صاحب نمایاں ہیں، اورشعیہ اسلام میں امام خمینی اور انکے عم عصر علما شامل ہیں۔

طالبان، دائش اور اسی طرح کے دیگر انتہاپسند اسلامی گروہوں کی فکری بنیاد بھی یہی سیاسی اسلام اور اسکی تفہیم ہے۔ یہ فکری انتشار اب اس قدر بڑھ چکا ہے کے مسلمان آپس میں بھی سر تن سے جدا سے کم بات نہیں کرتے۔ مودودی صاحب کی تمام تحریروں کا حاصل یہی ہے کے اقامت دین کے لیے جہاد اور قتال مسلمان کی زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔ اگر کسی کو میری رائے سے اختلاف ہے تو میرا مشورہ ہوگا کہ انکی صرف ایک کتاب توجہ سے پڑھ لیں “قران کی چار بنیادی اصطلاحات”  اس کتاب میں الٰہ ، رب ، عبادت اور دین کی اصطلاحات کو اقامت دین کے لئے حصول اقتدار کے ساتھ اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کے مسلمان کی زندگی کا بنیادی مقصد دنیا میں اسلام کے غلبہ کے لئے جدوجہد کا کرنا ہے اور اس نظام کی راہ میں جو بھی رکاوٹ آئے اس سے جنگ کرنی ہے۔ مودودی صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کے الہ اور رب صرف وہی ہوتا ہے جسکا اقتدار کائنات اور انسانوں پر ہو۔ اور اگر ہم اسکا حکم یعنی شریعت کا نظام انسانوں پر نافذ نہیں کرتے تو گویا ہم اسکی الٰہیت اور ربوبیت سے انکار کرتے ہیں یعنی شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں آج جب ہم مختلف سنی مسالک کو دیکھتے ہیں تو صورتحال یہ ہے کے جن روائتی علماء نے مودودی صاحب کی فکر سے علمی اور عملی اختلاف کیا تھا انکے مسالک کی تنظیمیں بھی آج عملی طور پر مودودی صاحب کی اقامت دین کی تفہیم کو ہی بنیادی دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنے مسلک کے غلبہ کے لئے سیاسی گروہ بنائے بیٹھے ہیں۔

مولانا وحیدالدین صاحب (جنکا چند برس پہلے بھارت میں انتقال ہوا) نے مودودی صاحب کی اس فکر کی علمی غلطیوں کی نشاندھی ۱۹۶۳ میں اپنی تصنیف “تعبیر کی غلطی” میں بہت مدلل طریقے سے بیان کی اور پھر اسکے بعد بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا۔ اس کتاب کا پہلا حصہ مودودی صاحب کے ساتھ انکی خط و کتابت ہے اور دوسرے حصہ میں مودودی صاحب کی تفہیم پر انہوں نے اپنا مقدمہ پیش کیا ہے۔ مولانا وحیدالدین صاحب کا بنیادی نکتہ یہ ہے کے اسلام کا مقصد تعمیر  انسان ہے جس میں ایک خاص نظم میں اخلاقیات کا نظام بھی ہے جو اپنے وقت کے تقاضوں کے ساتھ اپنی ترجیحات مرتب کرتا ہے لیکن اقامت دین کا جو تصور مودودی صاحب دیتے ہیں اور جس طرح وہ اسکو دین کی بنیاد بناتے ہیں یہ مودودی صاحب کے اپنے ذہن کی اختراح ہے اسلام کی منشا نہیں ہے۔



No comments:

Post a Comment

شام پر باغیوں کا قبضہ اور بعث پارٹی کا خاتمہ

پاکستان کی اسلامسٹ سُنی ملائیت شام کی خانہ جنگی اور اب باغیوں کے مکمل کنٹرول کو صرف شیعہ سُنی تنازعہ کی نظر سے دیکھ رہی ہے، جبکہ اسکے پیچھے ...