انسانی تہذیب اور علوم کے ارتقا پر غور و فکر سے یہ حقیقت آشکار ہوتی
ہے کہ مجموعی طور پر آج انسانی تہذیب سا ٹیکنالوجی اور تمدن کے میدان میں جس
مقام پر پہونچی ہے، اس میں ہر خطے اور ہر قوم کا کچھ نہ کچھ حصہ اور شراکت ہے- ہم
انسانوں نے ایک دوسرے کے خلاف جنگوں اور قتل و غارت کے باوجود مسلسل ایک دوسرے کے
تجربات اور علوم سے استفادہ کرتے ہوے اجتماعی انسانی سفر بھی جاری رکھا ہوا ہے- ہم
اپنی آسانی کے لیے جن کو مغربی، مشرقی، عربی، اسلامی تہذیب کے خانوں میں تقسیم
کرتے ہیں، یہ مختلف رنگ تو ضرور رکھتے ہیں لیکن سب نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا
بھی ہے- ایک دوسرے کے تجربات اور علوم سے
سیکھنے کی اسی خوبی کے سبب انسان اتنی ترقی کر سکا ہے، ورنہ ہر قوم دوبارہ پیا ایجاد
کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرتی رہتی-
اسی اجتماعی انسانی شعور کے تتیجہ میں انسان نے اجتماعی زندگی کے
کاروبار چلانے کے لیے سیاست میں دو طریقہ کار بناے ہیں
پرامن انتقال اقتدار کے لیے جمہوریت اور ووٹ کا طریقہ کار
ریاست کے معملات کو مذھبی اداروں اور تعصب سے دور رکھنا
آج ہم جس کو سیکولر جمہوری نظام مملکت کہتے ہیں اسکی بنیاد یہی دو طریقہ
کار ہیں- یعنی مذھب فرد کا انفرادی معاملہ ہے، اجتماع کو کلمہ پڑھانا ریاست کا کام
نہیں ہے- ریاست اس میں غیر جانبدار رہے گی، تاوقتکہ کے کوئی فرد یا گروہ اپنے مذہبی
نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کی طرف نہ چل پڑے- اسی طرح جمہوریت کو اکثریت کے جبر یا
اکثریت پسندی سے بچانے کے لیے مزید سوچ بچار کی بحث بھی جاری ہے- یہ نظام بہت سے ممالک اور معاشروں میں کامیابی
سے رائج ہو چکا ہے، اس میں وقت کے ساتھ ساتھ ارتقائی مراحل سے مزید بہتری آتی رہے
گی-
بیسویں صدی میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں دو بری ڈیولپمنٹس
ہوئیں- ایک تو آزاد قومی ریاستوں کا وجود سامنے آیا (گو کہ قومی ریاست کی اکیڈمک
تعریف پر مکمل طور پر کوئی بھی شائد پوری نہ اترے، لیکن یہ یہاں موضوع نہیں ہے)-
دوسرا یہ ہوا کہ دنیا سرمایہ دارانہ اور اشتراکی بلاکس میں تقسیم ہوگئی- ایسے میں
کچھ اسلامی علما نے سرمایہ دارانہ جمہوریت
اور اشتراکیت کے مقابل اسلامی ریاست کا نظریہ ایجاد کیا جس میں مذہب کو کو بنیاد
بنا دیا گیا- گویا جو مسلہ اجتمائی انسانی شعور کے سبب کافی حد تک حل ہو چکا تھا
اسکو مسلم معاشروں میں دوبارہ اٹھا دیا- جب
سرمایہ دارانہ جمہوری ممالک کے بلاک نے غور کیا تو انکو سیاسی اسلام کی تعبیر
مسلم ممالک میں اپنے مفاد میں لگی تاکہ مسلمان ممالک کو اشتراکیت کے مقابل اپنے
ساتھ ملایا جاے- اور پھر انہوں نے بھی اس سیاسی اسلام کی نشرواشاعت میں اپنا حصہ
بھی ڈالا- اس نۓ سیاسی اسلام کے خالقوں نے جن میں مولانا
مودودی اور سید قطب نمایاں تھے نے "اقامت دین" کو دین اختیار کرنے کے
معنی سے نکال کر دین نافذ کرنے کے معنی کے طور پر پیش کیا اور اسکو اجتماعی سطح پر
مسلمانوں کا بنیادی فریضہ کہہ کر زندگی کا نصب العین قرار دے دیا- میں یہاں مولانا
مودودی کی دو کتب کا حوالہ دینا مناسب سمجھتا ہوں- ایک تو قران کی چار بنیادی
اصطلاحات اور دوسری اسلامی ریاست- ان میں "الدین" کو نہ صرف ریاست کے ہم
معنی بنا دیا بلکہ ریاست میں "اقامت دین" کے نفاذ سے انکار کو شرک کے
مترادف ٹہرا دیا گیا-
کچھ ہم عصر اسلامی سکالرز نے اس نۓ سیاسی اسلام کو خوش آمدید کیا اور
کچھ نے اس پر بنیادی اعتراضات اٹھاتے ہوے رد کردیا، یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں
ہے، صرف مولانا وحیدالدین کی اس موضوع پر لکھی گئی کتاب "تعبیر کی غلطی"
کا حوالہ دینا مناسب سمجھتا ہوں- جس میں مولانا مودودی کے سیاسی اسلام کے نظریہ کو
چودہ سو سال کے مسلم مفسرین اور قران و سنت کی روشنی میں رد کیا گیا ہے- قرآن کے
طالبعلم جانتے ہیں کے قرآن کوئی سیاسی یا معاشی نظام ہرگز نہیں دیتا- البتہ انسان
کی ہدایت کے لیے اس میں سے کچھ رہنما اصول ضرور اخذ کئے جا سکتے ہیں- اسلام انفرادی
سطح پر روحانی عبادات اور اخلاقیات کا ایک ہدایت نامہ ہے جس میں انسان کو اپنی عقل
کے استعمال کی بار بار تاکید کی گئی ہے- یقینا جب افراد اس ہدایت پر عمل کریں گے
تو اس سے ایک تہذیب بھی تشکیل پاۓ گی جس کا ریاست احترام کرے گی لیکن "الدین"
ریاست کے اداروں کا نعم البدل ہرگز نہیں ہے اور دین کو جبریہ لوگوں پر نافذ نہیں کیا
جاسکتا اور یہ قران کا ہی دیا ہوا اصول ہے- قرآن کے یوم الحساب کے عقیدے کی موجودگی
میں ہمیں اپنی دین کی تفہیم کو جبر سے سب پر نافذ کرنے کو کوئی حق نہیں ہے-
دوسری طرف مذہبی پیشوائیت اور سیاسی اسلام کے داعی جس کو شریعی قانون
کہتے ہیں- دارصل اس کی تشکیل بھی رسول اللہ کے وصال کے سو ڈیڑھ سو سال بعد کی ہے-
اس کی حثیت ان علماء کی اپنی ذاتی راے اور اپنی تفہیم سے زیادہ کچھ بھی نہیں، ان
علماء کے درمیان اس تفہیم اور تفسیر میں شدید اختلافات بھی ہیں- انہی اختلافات کی
بنا پر مسالک اور فرقے وجود میں آے- یہ اختلافات زیادہ تر نجی معاملات سے ہی مطلق
ہیں- اگر ہم مذہب کو اپنی اصل جگہ یعنی اپنی ذات کے اعمال، اخلاقیات اور عبادات تک
محدود رکھیں تو یہ اختلافات اجتماعی زندگی میں تصادم کا باعث نہیں بنیں گے- یہی
کچھ مسلمان معاشروں میں صدیوں کی پریکٹس رہی ہے- سلطان یا خلیفہ اپنے زمانے کے
حساب سے امور سلطنت چلاتے تھے اور لوگ حسب ضرورت اپنے مسلک کے علماء سے نجی
معاملات میں راہنمائی لے لیتے تھے- اس طرح آج کے جمہوری دور میں اجتماعی معاملات
اجتماعی شعور سے طے کئے جائیں اور اس میں اگر مذہبی پیشوائیت کے پاس بھی کوئی تجاویز
ہیں تو وہ بھی اپنی بات اور دلیلیں رکھ دیں، لیکن انکی دی گئی تجاویز فائنل اتھارٹی
نہیں ہوسکتیں- اگر مذہب کو فائنل اتھارٹی مان لیا جاے گا تو پھر شہریوں کے حالات
دائش کے زیر قبضہ اسلامی ریاست اور طالبان کے امارت اسلامی افغانستان سے مختلف نہیں
ہونگے، جہاں غلام اور لونڈیوں کا جواز بھی شریعت سے نکالا جا سکے گا اور لڑکیوں کی
تعلیم بھی غیر اسلامی قرار دی جا سکے گی-
ہم ابتدائی دور کے مسلمانوں کے اجتماعی نظام پر غور کریں تو انکا
نظام اپنے حالات اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق ایک صحرائی قبائلی نظام تھا جسکی بنیاد
"خلیفہ قریش میں سے ہوگا" سے لیکر جزیات تک سب معاملات اپنے حالات اور
زمانے کے مطابق تھے- مسلمان ممالک اور معاشرے قرآن و سنت اور اس دور سے اپنے
اجتماعی نظام کے لیے کچھ رہنما اصول تو اخذ کر سکتے ہیں لیکن اس عہد کو اتھارٹی
سمجھ کر نافذ کرنے کی کوشش کسی طور قابل عمل نہیں ہے- اگر مسلمانوں نے اس دنیا میں
امن اور خوشحالی سے رہ کر ترقی کرنی ہے تو مسلمان ممالک کو اپنے اجتماعی نظام کو سیکولر
اور جمہوری اقدار پر استوار کرنا پڑے گا، جہاں اسلام کی ثقافتی اقدار کی ضمانت تو
ہو لیکن مذہبی پیشوائیت اور مذہب کا جبر اجتماعی زندگیوں پر ہرگز اثر انداز نہ
ہوسکے- اپنے عہد کے اجتماعی انسانی شعور پر بھروسہ ہی بہتر حل ہے