Wednesday, August 27, 2025

غزل

 زمین کے خداؤں سے کیوں اُلجھتا ہوں
نہ وہ ہیں آج تک بدلے نہ میں بدلتا ہوں
 
فرشتے زندہ نہ مجھ کو اُٹھا لے جائیں
گھر سے اس لئے باہر کم نکلتا ہوں
 
خیال و خواب کی وادی کا مُسافر ہوں
حقیقتوں کی ہر ایک راہ میں بھٹکتا ہوں
 
مجھ کو کیوں یہ غم ہے اگر سارا شہر جلتا ہے
چراغ بن کر میں تو اپنی ہی جھونپڑی میں جلتا ہو
 
میں اوروں سے انصاف کیا مانگوں
میں تو کئی بار اپنی  گواہی بدلتا ہوں
 
گر اُسے کوئی غم ہے تو بس یہی اسجد
کہ اُس زمانے میں بھی سچی بات کرتا ہوں

No comments:

Post a Comment

منشیِ بلاسفہمی

منشیِ بلاسفہمی قاتل بھی ہو، پھر بھی مظلوم کہلائے، گستاخ بھی ہو، پھر بھی عاشق بن جائے! یہ کیسا زمانہ، یہ کیسی روش، جہالت نے علم پہ خنجر چلائے...