پاکستان کی تاریخ کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا سیاسی سانحہ 16 اکتوبر 1951 کو پیش آیا، جب ملک کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔
یہ واقعہ صرف ایک قتل نہیں بلکہ ایسا راز ہے جس پر آج بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں
قاتل کون تھا؟
کیا یہ ایک فرد کی انفرادی کارروائی تھی؟
یا اس کے پیچھے کوئی بڑی سازش کارفرما تھی؟
سازش کہاں بنی، اور اصل فائدہ کس کو ہوا؟
حال ہی میں شائع ہونے والی ڈاکٹر فاروق ببرکزئی کی کتاب
“The Assassination of Liaquat Ali Khan: A Critical Look at the Early History of Pakistan, 1947–1952”
انھی سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ہے۔
اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ مصنف خود سعد اکبر کے بیٹے ہیں—وہی شخص جس پر لیاقت علی خان کے قتل کا الزام عائد ہوا تھا اور جو جائے واردات پر ہی مارا گیا۔
سعد اکبر کا خاندان افغانستان سے ہجرت کر کے ایبٹ آباد میں آباد ہوا تھا، اور وہ اس وقت کی پاکستانی ریاست کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ وابستہ تھے، جہاں سے وہ بھاری مالی مراعات حاصل کرتے تھے۔
ڈاکٹر فاروق ببرکزئی نے اس کتاب میں نہ صرف اپنی ذاتی اور خاندانی یادداشتوں کو قلم بند کیا ہے بلکہ پاکستان کے ابتدائی پانچ برسوں کی سیاست کو بھی تحقیقی انداز میں پرکھا ہے
قیامِ پاکستان کے بعد کی سیاسی کشمکش؛ کشمیر کی پہلی جنگ اور اُس کے اثرات؛ راولپنڈی سازش کیس اور طاقت کی رسہ کشی، سب سے بڑھ کر لیاقت علی خان کے قتل کے پس منظر میں چھپی ہوئی سازشوں اور محرکات پر ایک جرات مندانہ بحث ہے-
یہ کتاب محض تاریخ کا تذکرہ نہیں بلکہ ایک متبادل زاویہ نظر ہے—جو قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کہیں اصل حقائق ہمیشہ کے لیے پردوں میں تو نہیں چھپا دیے گئے۔
اور جب ان پہلوؤں کو بعد کے سیاسی واقعات سے جوڑا جائے تو پاکستان کی تاریخ کی ایک دھندلی تصویر رفتہ رفتہ صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔
یہ کتاب اُن سب کے لیے نہایت اہم ہے جو پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ، سیاسی تاریخ اور طاقت کی کشمکش کو گہرائی سے سمجھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment