آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے حالیہ
دنوں میں ایک سے زائد مرتبہ یہ اعتراف کیا ہے کہ 1979 سے پہلے کا پاکستانی معاشرہ
خاصا متوازن تھا۔ اُس دور میں اختلافِ رائے کے باوجود برداشت کا عنصر غالب تھا،
لیکن اس کے بعد مذہبی شدت پسندی، سیاسی انتشار اور عدم برداشت نے معاشرتی ڈھانچے
کو بری طرح مجروح کر دیا۔
یہ اعتراف اپنی جگہ اہم ہے، مگر
سوال یہ ہے کہ اس انحطاط کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو صاف
دکھائی دیتا ہے کہ جولائی 1977 کی فوجی مداخلت کے بعد سے اقتدارِ اعلیٰ کبھی بھی
مکمل طور پر عوامی نمائندوں کے سپرد نہیں کیا گیا۔ بڑے قومی و بین الاقوامی فیصلے
اکثر عوامی مینڈیٹ کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات کے مطابق کیے گئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں ریاستی
پالیسیوں میں مذہبی عناصر کو باقاعدہ داخل کیا گیا۔ افغان جہاد کے نام پر مذہبی
گروہوں کو عسکری تربیت، مالی وسائل اور سرکاری سرپرستی فراہم کی گئی۔ بعد کے برسوں
میں "اسٹریٹجک ڈیپتھ" کی پالیسی، "گڈ طالبان، بیڈ طالبان" کی
تفریق، اور مذہب کو اپنے ہی شہریوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے جیسے اقدامات
نے پاکستانی معاشرے میں ایسی دراڑیں ڈال دیں جو آج بھی بھرنے کا نام نہیں لیتیں۔
یقیناً وہی ہاتھ جو اس بگاڑ میں
شریک رہے ہیں، اب ان پر یہ اخلاقی اور قومی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی
پالیسیوں کا ازسرِ نو جائزہ لیں۔ محض ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کافی نہیں، بلکہ
عملی اقدامات کے ذریعے قوم کو دوبارہ ایک متوازن اور پُرامن راہ پر لانا وقت کی سب
سے بڑی ضرورت ہے۔
آگے بڑھنے
کے لیے چند ناگزیر اقدامات
ریاستی شفافیت
اور عوامی نمائندگی
تمام قومی فیصلے عوامی نمائندوں
اور پارلیمان کے ذریعے ہوں، پسِ پردہ قوتوں کے ذریعے نہیں۔
مذہب کو
سیاست سے الگ کرنا
مذہب کو
طاقت کے کھیل یا سیاسی انجینئرنگ کا ذریعہ بنانے کی روش ترک کی جائے۔ عقیدے کو صرف
فرد کا ذاتی معاملہ سمجھا جائے۔
تعلیمی
اصلاحات
نصابِ
تعلیم میں برداشت، تنوع اور تنقیدی سوچ کو فروغ دیا جائے تاکہ نئی نسل شدت پسندی
کے بجائے مکالمے کی روایت اپنائے۔
مسلح
گروہوں کے خلاف غیر مبہم پالیسی
گڈ اور
بیڈ عسکریت پسندوں کی تقسیم ختم کیے بغیر ریاستی رٹ قائم نہیں ہو سکتی۔ ہر قسم کی
عسکریت پسندی کے خلاف یکساں حکمتِ عملی ناگزیر ہے۔
جمہوریت
کا تسلسل
سیاسی عمل
میں تسلسل اور آئینی اداروں کی بالادستی ہی معاشرتی توازن کی ضمانت ہے۔ فوج سمیت
تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کردار ادا کریں۔
پاکستانی معاشرہ ماضی میں توازن
اور رواداری کی مثال رہا ہے۔ اگر ہم نے اپنی غلطیوں سے سچ مچ سیکھنے کا حوصلہ پیدا
کیا تو یہ توازن دوبارہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب طاقت کے
مراکز اپنی ترجیحات کو بدلیں اور عوامی
مینڈیٹ کو اصل قوتِ فیصلہ تسلیم کریں۔
تحریر: اسجد بخاری
ورنہ تاریخ یہ لکھنے پر مجبور ہوگی کہ جنہیں توازن قائم رکھنا تھا، وہی اس بگاڑ کے سب سے بڑے ذمہ دار ثابت ہوئے۔
No comments:
Post a Comment