Sunday, October 5, 2025

منشیِ بلاسفہمی

منشیِ بلاسفہمی
قاتل بھی ہو، پھر بھی مظلوم کہلائے،
گستاخ بھی ہو، پھر بھی عاشق بن جائے!
یہ کیسا زمانہ، یہ کیسی روش،
جہالت نے علم پہ خنجر چلائے!

دین کا سوداگر، ہَوَس کا اسیر،
نفس کا خادم، خود کو کہے امیر۔
زخم بھی دے، پھر مرہم کی بات کرے،
جھوٹ کے سہارے حق کی بات کرے۔

ایسے بدکردار کو دنیا کہے “راو عبدالرحیم”،
مگر عوام جانتے ہیں، یہ ہے منشیِ بلاسفہمی!
جو ناپتا ہے ایمان کو پیمانوں سے،
اور شور مچاتا ہے عاشقی اعلانوں سے۔

کیسا ہوا وہ عاشقِ رسول کا!
خوں جس نے کیا آلِ رسول کا!
اس کا کردار زہر کی پھونک سا،
اور دل میں بس ابلیس کا قانون سا۔

لفظوں کی منڈی میں ایمان بِکتا ہے،
دین کے نام پہ شیطان بکتا ہے۔
وہ مکّار، ریاکارِ بے ضمیر،
جو ظلم کو کہے تقدیر کی لکیر۔

اے منشیِ بلاسفہمی!
وقت تیرا گزرے گا، پر نام نہ مٹے گا۔
تاریخ کے اوراق پہ تُو،
دین‌فروشوں کے قبیلے کا خوں‌خوار کہلائے گا۔

کب تک چلے گا یہ فریبِ نظر؟
کب تک چھپے گا یہ سچ کا سفر؟
وقت کے آئینے میں سب عیاں ہوگا،
منشی کا چہرہ بھی ننگا بیان ہوگا۔

اے اہلِ حق!
اُٹھو، کہ جھوٹ کے ایوان ہلانے ہیں،
وہ منشی جو ایمان بیچتا ہے،
اُس کے پیمانے جلانے ہیں!
یہ جنگِ قلم بھی ہے، یہ جنگِ ضمیر بھی،
اب سچ بولنا ہے، سب سے بڑی تدبیر بھی۔

(اسجد بخاری – پانچ اکتوبر ۲۰۲۵)



 

منشیِ بلاسفہمی

منشیِ بلاسفہمی قاتل بھی ہو، پھر بھی مظلوم کہلائے، گستاخ بھی ہو، پھر بھی عاشق بن جائے! یہ کیسا زمانہ، یہ کیسی روش، جہالت نے علم پہ خنجر چلائے...