Thursday, September 4, 2025

جتماعی انسانی شعور کا ارتقا اور سیاسی اسلام

 

انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ آج جس علمی، سائنسی اور تہذیبی مقام پر انسانیت پہنچی ہے، اس میں ہر خطے، ہر قوم اور ہر تہذیب نے کسی نہ کسی صورت میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ انسانی تاریخ جنگوں، تصادموں اور قتل و غارت سے ضرور بھری پڑی ہے لیکن اس سب کے باوجود انسان ہمیشہ ایک دوسرے کے تجربات اور علوم سے استفادہ کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجتماعی انسانی شعور کا ارتقا ممکن ہوا۔

ہم اپنے فہم کو آسان بنانے کے لیے تہذیبوں کو ’’مشرقی‘‘، ’’مغربی‘‘، ’’اسلامی‘‘ یا ’’عربی‘‘ خانوں میں بانٹ دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان سب نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا۔ اگر انسان ہر بار اپنی توانائی دوبارہ ’’پہیہ ایجاد‘‘ کرنے پر صرف کرتا تو شاید آج ہم اس سطح کی ترقی کو کبھی نہ پہنچ پاتے۔

اجتماعی شعور اور سیاست کی ارتقا یافتہ شکل

اجتماعی انسانی شعور کے نتیجے میں ریاست اور سیاست میں دو بڑی بنیادیں سامنے آئیں:

پرامن انتقالِ اقتدار کے لیے جمہوریت اور ووٹ کا نظام۔
ریاست کے معاملات کو مذہبی اداروں اور تعصب سے الگ رکھنا۔

ان دونوں اصولوں نے مل کر وہ نظام تشکیل دیا جسے آج ہم سیکولر جمہوریت کہتے ہیں۔ اس نظام میں مذہب فرد کا انفرادی معاملہ ہے، جبکہ ریاست کا کام سب شہریوں کے حقوق اور آزادی کی ضمانت دینا ہے۔ ریاست کسی فرد یا گروہ کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنے مذہبی نظریات دوسروں پر مسلط کرے۔

بیسویں صدی میں پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا نے دو بڑی تبدیلیاں دیکھیں:

قومی ریاستوں کا قیام
دنیا کا دو بلاکس میں تقسیم ہونا: سرمایہ دارانہ جمہوری بلاک اور اشتراکی بلاک۔

اسی دور میں کچھ مسلم علما اور مفکرین نے ’’اسلامی ریاست‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔ ان کے خیال میں سرمایہ دارانہ جمہوریت اور اشتراکیت دونوں ناقص نظام ہیں، لہٰذا مسلمانوں کے لیے الگ سیاسی نظام ہونا چاہیے جس کی بنیاد مذہب پر ہو۔

سیاسی اسلام کی تشکیل

اس نئے سیاسی اسلام کی تشکیل میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید قطب جیسے مفکرین نمایاں ہیں۔ انہوں نے ’’اقامتِ دین‘‘ کو محض ’’دین پر عمل کرنے‘‘ کے بجائے ’’ریاستی سطح پر دین نافذ کرنے‘‘ کے معنی میں پیش کیا اور اس کو اجتماعی سطح پر مسلمانوں کا بنیادی فریضہ قرار دیا۔ مولانا مودودی کی کتب "قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات" اور "اسلامی ریاست" میں یہ مؤقف واضح نظر آتا ہے۔ انہوں نے ’’الدین‘‘ کو ریاست کے ہم معنی بنا کر اس کے نفاذ سے انکار کو شرک کے مترادف قرار دیا۔

اس تعبیر نے مسلم دنیا میں نئی فکری بحث کو جنم دیا۔ کچھ علما اور حلقے اس سے متاثر ہوئے جبکہ بعض نے اس پر بنیادی اعتراضات اٹھائے۔ مولانا وحید الدین خان نے اپنی کتاب "تعبیر کی غلطی" میں مودودی کے تصورِ سیاسی اسلام کو قرآن و سنت اور مسلم علمی روایت کی روشنی میں رد کیا۔

قرآن کا طالب علم جانتا ہے کہ قرآن کسی سیاسی یا معاشی نظام کا خاکہ پیش نہیں کرتا بلکہ انسانوں کے لیے ہدایت اور اخلاقی اصول فراہم کرتا ہے۔ قرآن بار بار عقل کے استعمال پر زور دیتا ہے۔ اس کا مقصد فرد کی اصلاح اور اخلاقی تربیت ہے۔ یہی فرد جب اپنی عملی زندگی میں قرآنی ہدایات پر عمل کرے گا تو اس سے ایک صالح معاشرہ تشکیل پائے گا۔ لیکن ’’الدین‘‘ کو ریاستی اداروں کا متبادل قرار دینا نہ قرآن کا مقصد ہے اور نہ ہی اسلامی تاریخ اس کی تائید کرتی ہے۔

مذہبی پیشوائیت اور شریعت

سیاسی اسلام کے داعی شریعت کے نفاذ پر زور دیتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ فقہ اور شریعت کی موجودہ تدوین زیادہ تر رسول اللہ ﷺ کے وصال کے تقریباً ایک سو پچاس سال بعد کی ہے۔ یہ مختلف علما کی آرا اور اجتہادات کا نتیجہ تھی، اور انہی اختلافات کی بنیاد پر مختلف فقہی مسالک وجود میں آئے۔ اس لیے شریعت کی تشریحات انسانی فہم سے زیادہ کچھ نہیں۔

اسلامی تاریخ میں صدیوں تک مذہب بنیادی طور پر افراد کی نجی زندگی اور عبادات تک محدود رہا۔ سلطنت اور خلافت کے نظام اپنے دور اور حالات کے مطابق چلتے رہے۔ عوام حسبِ ضرورت اپنے مسلک کے علما سے نجی معاملات میں رجوع کرتے تھے، لیکن اجتماعی نظام زیادہ تر سیاسی اور سماجی تقاضوں پر مبنی ہوتا تھا۔

اگر آج مذہب کو اجتماعی معاملات میں فائنل اتھارٹی مان لیا جائے تو نتیجہ داعش کی نام نہاد ’’اسلامی ریاست‘‘ یا طالبان کی ’’امارتِ اسلامی افغانستان‘‘ جیسا ہوگا جہاں غلامی، لونڈیوں کی خرید و فروخت، یا خواتین کی تعلیم پر پابندی جیسے اقدامات ’’شریعت‘‘ کے نام پر جائز قرار دیے جاتے ہیں۔

ابتدائی دور کے مسلمان اور آج کی دنیا

ابتدائی دور کا مسلمانوں کا سیاسی و اجتماعی نظام اپنے وقت کے مطابق ایک صحرائی قبائلی ڈھانچے پر قائم تھا۔ ’’خلیفہ قریش میں سے ہوگا‘‘ سے لے کر دیگر جزیات تک سب اسی دور کی ضرورتوں کے مطابق تھے۔ آج کے مسلمان ان سے رہنمائی تو ضرور لے سکتے ہیں لیکن ان کو حرفِ آخر سمجھ کر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔

اگر مسلم دنیا کو امن، خوشحالی اور ترقی درکار ہے تو اسے اپنے اجتماعی نظام کو سیکولر اور جمہوری اقدار پر استوار کرنا ہوگا۔ اس نظام میں اسلام کی ثقافتی اور اخلاقی اقدار کا احترام تو ہوگا مگر مذہبی پیشوائیت اور مذہبی جبر اجتماعی زندگی پر مسلط نہیں ہو سکے گا۔

اجتماعی انسانی شعور کا یہی ارتقائی سفر ہمیں سکھاتا ہے کہ اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق اجتماعی نظام تشکیل دینا ہی انسانیت اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے بہتر حل ہے۔

Tuesday, September 2, 2025

لیاقت علی خان کا قتل — ایک نیا زاویہ نظر

پاکستان کی تاریخ کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا سیاسی سانحہ 16 اکتوبر 1951 کو پیش آیا، جب ملک کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔

یہ واقعہ صرف ایک قتل نہیں بلکہ ایسا راز ہے جس پر آج بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں

قاتل کون تھا؟
کیا یہ ایک فرد کی انفرادی کارروائی تھی؟
یا اس کے پیچھے کوئی بڑی سازش کارفرما تھی؟
سازش کہاں بنی، اور اصل فائدہ کس کو ہوا؟

حال ہی میں شائع ہونے والی ڈاکٹر فاروق ببرکزئی کی کتاب
“The Assassination of Liaquat Ali Khan: A Critical Look at the Early History of Pakistan, 1947–1952”
انھی سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ہے۔

اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ مصنف خود سعد اکبر کے بیٹے ہیں—وہی شخص جس پر لیاقت علی خان کے قتل کا الزام عائد ہوا تھا اور جو جائے واردات پر ہی مارا گیا۔
 سعد اکبر کا خاندان افغانستان سے ہجرت کر کے ایبٹ آباد میں آباد ہوا تھا، اور وہ اس وقت کی پاکستانی ریاست کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ وابستہ تھے، جہاں سے وہ بھاری مالی مراعات حاصل کرتے تھے۔

ڈاکٹر فاروق ببرکزئی نے اس کتاب میں نہ صرف اپنی ذاتی اور خاندانی یادداشتوں کو قلم بند کیا ہے بلکہ پاکستان کے ابتدائی پانچ برسوں کی سیاست کو بھی تحقیقی انداز میں پرکھا ہے

قیامِ پاکستان کے بعد کی سیاسی کشمکش؛  کشمیر کی پہلی جنگ اور اُس کے اثرات؛ راولپنڈی سازش کیس اور طاقت کی رسہ کشی، سب سے بڑھ کر لیاقت علی خان کے قتل کے پس منظر میں چھپی ہوئی سازشوں اور محرکات پر ایک جرات مندانہ بحث ہے-

یہ کتاب محض تاریخ کا تذکرہ نہیں بلکہ ایک متبادل زاویہ نظر ہے—جو قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کہیں اصل حقائق ہمیشہ کے لیے پردوں میں تو نہیں چھپا دیے گئے۔
اور جب ان پہلوؤں کو بعد کے سیاسی واقعات سے جوڑا جائے تو پاکستان کی تاریخ کی ایک دھندلی تصویر رفتہ رفتہ صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔

یہ کتاب اُن سب کے لیے نہایت اہم ہے جو پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ، سیاسی تاریخ اور طاقت کی کشمکش کو گہرائی سے سمجھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔



منشیِ بلاسفہمی

منشیِ بلاسفہمی قاتل بھی ہو، پھر بھی مظلوم کہلائے، گستاخ بھی ہو، پھر بھی عاشق بن جائے! یہ کیسا زمانہ، یہ کیسی روش، جہالت نے علم پہ خنجر چلائے...